ابراہیم جمال بٹ
میں سو یا ہوا تھا کہ اچانک ایک ایسا منظر سامنے دکھائی دیا کہ میں ڈر گیا لیکن بیدار نہیں ہوا۔ ایک بزرگ اور لاچار خاتون دیکھی جس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی سے چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں کچھ گھریلو کام آنے والے چیز تھے… اس کا چلنا اس قدر تیز تھا کہ جیسے ایک نوجوان دوشیزہ چل رہی ہو، اس کی خود کے ساتھ ہی وہ باتیں کرنا بھی برابر مجھے یاد ہیں جن میں وہ زور زور سے ’’الٰہی المدد،الٰہی المدد،الٰہی المدد‘‘کہہ رہی تھی ۔ اس کے ہر قدم پر اور اس کی ہر بات پر کوئی بھی شخص دھیان نہیں دے رہا تھا بلکہ سب اپنی اپنی ڈفلی بجا ئے مزے سے چل رہے تھے… اس بزرگ خاتون کا یہ منظر دیکھ کر میں ذرا اس کے قریب گیا تو اس کے ایک ہاتھ میں جلی ہوئی چھوٹی سی لکڑی کا حصہ تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک چمچ ، ایک چھوٹی سے بوتل اور ایک عدد ٹوٹا ہوا پیالہ ۔ بزرگ خاتون نے جوں ہی مجھے دیکھا تو بلا جھجک مجھ سے پوچھنے لگی کہ بیٹا مجھے میرے گھر تک پہنچا دو، میں شاید راستہ بھول گئی ہوں۔
اس کی باتیں سن کر مجھے معلوم ہوا کہ اس خاتون کا اصل مسئلہ کیا ہے لیکن میری یہ سوچ بھی اس وقت غلط نکلی جب میں نے بڑے ہی ادب اور احترام کے ساتھ اس سے سوالیہ انداز میں پوچھا ’’اماں کہاں جانا ہے، میں پہنچا دوں گا‘‘ میرا یہ جواب سننا ہی تھا کہ اس نے بے ساختہ ’’روہنگیا‘‘ کے کسی شہرکا نام بتایا، میں حیران تھا کہ خاتون کہاں کی ہے اور اس وقت کہاں ہے… کیوں کہ میں کشمیر سے وابستہ ہوں اور وہ برما کے کسی شہر سے وابستہ ، اس کی یہ باتیں سن کر میں اب اور حیران ہو گیا جب میں نے ایک اور مرتبہ اس بزرگ خاتون سے پوچھا کہ ’’اماں !کیا ہوا کہ آپ راستہ بھول کر اپنے شہر سے بہت دور جا پہنچی ؟‘‘ بزرگ خاتون نے بڑے ہی ادب کے ساتھ کہا کہ بیٹا میں ایک ایسے شہر کی رہنی والی ہوں جہاں پر آج کل بڑے بڑے کارنامے انجام دئے جارہے ہیں … جہاں ایک ہی گھر کے دس دس افراد کو پکڑ کر آگ میں سلا دیا جارہا ہے کہ وہ دوبارہ اُٹھنے کے قابل ہی نہیں رہتے… جہاں عورتوں کی پہلے بے عزتی اور پھر ٹکڑے کر دیاجاتا ہے… جہاںمعصوم بچوں کو پکڑ پکڑ کر یا تو دریائوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا ایک گھڑے میں ڈال اوپر سے آگ جلا کر اسے نظر آتش کر دیا جاتا ہے۔
اس خاتون کی یہ باتیں سن کر میں اور بھی حیران رہ گیا… میں سوال کرنا ہی چاہ رہا تھا کہ وہ بولی کہ ’’بیٹا میں صبح گھر سے نکلی ہوں اور اس وقت تک اپنے چھوٹے اور ننھے سے پوتے کو ڈھونڈ رہی ہوں… چھ سال کے اس پوتے کی تلاش میں نکلی ہوں جو میرا اور اپنی ماں کا اکلوتا سہارا ہے…‘‘ میں نے پھر سوالیہ انداز میں بات کی کہ بچے کا والد اور باقی رشتہ دار کہاں ہیں؟ جس کے جواب میں بزرگ اماںنے بڑے ہی پُردرد لہجے میں کہا کہ باپ کا سہارا اُس کے جنم سے پہلے ہی اُٹھ چکا ہے اس کے بعد اب اس کی زندگی کو چار چاند لگانے یعنی تربیت اور پالن پوسن کے لیے میں اور میری بہو تھی…‘‘ میں پھر ایک سوال کر بیٹھا جس پر ان کی آنکھیں اس قدر تر ہو گئیں کہ چند وقت گزرنے کے بعد جب میں نے اپنی آنکھوں پر غور کیا تو وہ بھی آب آپ ہو گئی تھیں۔ بزرگ اماں نے کہا کہ میرا بیٹا گھر کا اکلوتا ذمہ دار شخص تھا جس کے اوپر ساری ذمہ داری تھی اس لیے وہ دن ورات محنت مشقت کر کے ہمیں پال رہا تھا لیکن چند سال قبل ایک علاقے سے گزر رہے تھے کہ چند لوگوں نے اسے پکڑ کر زندہ تندور میں ڈال دیا… یہ تو خوش قسمتی تھی کہ تندور کا مالک اس کا جانا پہچانا تھا… اسی پہچان کی وجہ سے میرے بیٹے کے حشر کا مجھے معلوم ہوا… اگر یہ معلوم نہ ہوتا تو میں آج بھی پریشان حال رہتی کہ آخر وہ گیا کہاں؟‘‘ بزرگ اماں نے شاید ،میری آنکھوں میں آنسو دیکھے … اس نے بڑے ہی اچھے انداز سے مجھے کہا کہ ’’بیٹا ابھی اور سننا باقی ہے‘‘ بیٹا چند روز قبل میں گھر میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک دروازے پر کسی نے آواز دی، میری بہو نے مجھے پکار کر دروازے کی جانب اشارہ کیا تو میں نے ذرا زور سے آواز لگائی کون ہے…؟کیا چاہیے؟ آواز جانی پہچانی تھی اس لیے بہو نے اماں کی اجازت کے بعد دروازہ کھول دیا ، دروازہ کھولنا ہی تھا کہ کیا دیکھتی ہوں ایک نوجوان پڑوسی ہے جو بہت ہی گھبرایا ہوا تھا… وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن اس پر اس قدر خوف طاری ہو چکا تھا کہ وہ منہ کھول کھول کر باتیں کرنے کی کوشش تو کر رہا تھا لیکن آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر میں نے اس سے کہا کہ بیٹا کیا بات ہے، کیوں ڈرے ہوئے ہو… ؟بہو کے پیچھے مجھے دیکھ کر وہ چلایا اور اس زور سے چلایا کہ بے ہوش ہو گیا… بہو نے جلدی سے پانی کا ایک چھوٹا سا پیالہ لایا اور چند چھینٹیں ڈال کر جب اس نوجوان کو ہوش آیا تو برابر پانچ منٹ ہو چکے تھے ، اس نے گھڑی کو دیکھا تو اور جلدی جلدی سے کہنے لگا کہ اماں آگ اور خون۔ اس کی باتیں سننا ہی تھا کہ میں باہر نکل آئی… کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جم غفیر نے پورے علاقے کے لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے… ان کے ہاتھیوں میں مشعل نما کچھ چیزیں تھی … وہ ان لوگوں سے کچھ پوچھ رہے تھے کہ ایک دوسرا جم غفیر آگیا اور اس نے گھیرے میں آئے ہوئے تمام لوگوں کی ہاتھوں کو رسی سے باندھ کر ایک جگہ جمع کیا… میں آواز دینے ہی والی تھی کہ کسی کی نظر مجھ پر پڑی …میں اندر داخل ہونے ہی کی سوچ رہی تھی کہ ان میں سے چند خوفناک چہروں والے لوگ دوڑے ہوئے میرے سامنے آدھمکے۔ میں ان کی کیا سنتی کہ مجھے ان کے ہاتھوں پر لگا خون نظر آیا… ان کے ہاتھوں پر خون، ان کی پیشانیوں پر خون کی چھینیٹں، ان کے کپڑے خون میں لت پت… یہ سب دیکھ کر مجھے میرا بیٹا یاد آگیا کہ شاید یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے میرے بیٹے کو آگ کے تندور میں بھر کر زندہ جلا دیا تھا، میں خوف اور پرانے یادوں کی وجہ سے بے ہوش ہو کر وہیں گر پڑی، چند منٹ کا وقفہ گزر گیا تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہ نوجوان جس نے آواز دے کر ہمیں بچانے کی کوشش کی تھی، اس کا سر میرے سامنے تھا اور جسم کے الگ الگ حصے بکھرے پڑے تھے… میں ہمت کر کے اُٹھ کھڑی ہوئی تو مکان کے ایک کمرے میں اپنی بہو کا صرف ایک حصہ نظر آیا جس میں نہ ہی پیر تھے اور نہ ہی ہاتھ، نہ ہی سر تھا اور نہ ہی گردن بلکہ سب کچھ بکھرا بکھرا پڑا ہوا تھا… پھر سے ہمت کر میں آگے بڑھی … دو کمروں پر مشتمل چھوٹے سے اپنے جھونپڑے کا چپہ چپہ مارا لیکن پوتا کہیں پر نہیں ملا… میں اسی وقت سمجھ گئی کہ میرا پانچ برس کا پوتا ڈر کے مارے کہیں چھپ چکا ہے… لیکن بیٹا ابھی بھی وہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ میں نے ہر اس جگہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی جہاں وہ جا سکتا تھا لیکن تاحال وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بزرگ امام کی یہ باتیں سن کر میں سمجھ گیا کہ اس پر کونسی آفت پڑی ہوئی ہے…!
میں نے ایک سوال اور کیا کہ ’’اماں یہ جلی ہوئی لکڑی کا حصہ لے کر آپ اب کہاں جا رہی ہیں؟‘‘ بزرگ اماں نے بڑے بہادروں والے انداز میں کہا کہ پوتے کو ڈھونڈ کر بیٹا گھر واپس پہنچنا ہے، اس دوران اگر کسی ’’شرپسند‘‘ کا سامنا ہوا تو اس چھڑی سے اس کا کام تمام کر دوں گی… ہاتھ میں بوتل بھی ہے اور ٹوٹا ہوا پیالہ بھی ، بیٹا دراصل میرا پوتا بیمار ہے اس کی دوائی والی بوتل اور یہ پیالہ ہے جب مل جائے گا تو دوائی پلانی پڑے گی نا، یہ دوائی صبح وشام دو مرتبہ کھانی پڑتی ہے لیکن پتا نہیں کہاں چھپا ہوا ہے کہ دن بھر نہ ہی دوائی کھا سکا اور نہ ہی میرے پاس آبیٹھا۔
مجھے پورا یقین تھا کہ اس کا وہ پوتا جو صرف پانچ سال کا تھا کہیں نہیں چھپ سکتا تھا اور نہ ہی کہیں دور جا سکتا تھا… میری سمجھ میں آگیا کہ اس کا وہ چھوٹا اور ننھا ساپوتا کہیں کھویا نہیں بلکہ اسے مار دیا گیا ہو گا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ بزرگ اماں نے کہا کہ بیٹا مجھے میرے شہر تک پہنچا دو… پوتا بیمار ہے، اسے دوائی کھلانی ہے، اور تو اور صبح سے بھوکا بھی ہے، اسے بہت بھوک لگی ہو گی۔ بیٹا بیٹا! کر کے وہ چلاتی رہی اور میں نہ ہی اس کی بات کا جواب دے پایا اور نہ ہی وہاں سے ہل سکتا تھا۔ بیٹا بیٹا کرنا ہی تھا کہ ایک زور کی آواز آئی … دادی، دادی، دادی… میں نے حیران ہو کر پیچھے دیکھا تو ایک چھوٹا سا بچہ پایا جس کے ایک ہاتھ میں ایک بوتل تھی اور دوسرے میں چمچ… وہ میرے قریب آرہا تھا اور بزرگ اماں بیٹا بیٹا پکار رہی تھی… ایک طرف دادی دادی اور دوسری طرف بیٹا بیٹا… دونوں سامنے تھے لیکن ایک دوسرے کو شاید نہیں دیکھ پا رہے تھے… میں دیکھتا ہی رہاکہ ایک اور آواز آئی کہ کیا سوچ رہے ہو؟
یہ دونوں اس وقت عالم برزخ میں بیٹھے ہوئے ہیں پوتے کی دوائی لے کر دادی اور دادی کی دوائی لے کر پوتا بیٹھا اس انتظار میں ہیں کہ کب وہ آجائے۔ کیا دیکھتے ہو…کیا دیکھتے ہو…کیا دیکھتے ہو۔بار بار یہ آواز سننے کے بعد آخر کار کسی طرف سے آواز آئی کہ جا کے چپ چاپ کسی کونے میں بیٹھ کرذکر اللہ کئے جا… اپنے ہی بھائیوں کی گردن کاٹنے کے لیے سامان تیار رکھ… تمہارا حال اس حالت سے زیادہ بدتر ہو گا،کیوں کہ تم دیکھتے رہے اور ننھا پوتا جلتا رہا… بزرگ اماں کٹتی رہی۔ اس غیبی آواز کو سن کر میں اس قدر خوف سے لرز اٹھا کہ اُٹھ کھڑا ہو گیا… کیا دیکھتا ہوں کہ میں نیند میں خواب دیکھ رہا تھا۔ ایسا خواب جس نے میری آنکھوں میں سچ مچ کے آنسو لائے ۔ میری زبان سے بس یہی بات نکلی کہ اُف خدایا یا کیا دیکھا اور کیوں دیکھا………!