-
ایران امریکہ مذاکرات ،ایک جائزہ
- سیاسی
- گھر
ایران امریکہ مذاکرات ،ایک جائزہ
249
M.U.H
08/06/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
انقلاب اسلامی کی کامیابی کےبعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتمادآلۂ کارتھاجس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیاتھا۔مثال کے طورپر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھاجس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیاتھا۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قراردیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی ۔انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیااور آج پوری دنیااگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے ۔خطے میں موجود مزاحتمی محاذکی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہاہے جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے ۔البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیداکیں۔غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبک دوش نہیں کیاجاسکتا جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں ۔اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیاگیا۔مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جارہے تھے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے ،اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیادور عمان کے تعاون سے شروع ہواتھا۔البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجودہے ۔ظاہری طورپر ٹرمپ ایران کو دھمکاکر دنیا کو یہ باورکراناچاہتے ہیں کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیاہے ۔جب کہ باطنی طورپر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتے اور سفارتی طورپر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیراہیں ۔ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانارہی ہے ۔مذاکرات سے پہلے اور بعد بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے ۔ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہاہے کہ ایران کو دھمکایانہیں جاسکتااور اگر ہم پر حملہ کیاگیاتو اس کا منہ توڑ جواب دیاجائے گا۔جب کہ ٹرمپ نےزمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کردیاتھاکہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کاروائی کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔جب کہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچناپڑے گاکیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کاباعث بنے گاجس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ایران پر حملے سے دنیا کوناقابل بیان اقتصادی نقصان پہونچے گاکیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کردیاجائے گاجہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیسفیصد تیل گذرتاہے ۔گویاکہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی ۔عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالادینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے ۔ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعہ ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئےحملے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والاہے ۔مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایاجائے گاجس کی تیاری اسرائیل کررہاہے۔دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والانہیں ہے ۔ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے ۔گوکہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراًبعد چھیڑ دی گئی تھی ۔لہذا ایران کو استعمار ی طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے ۔اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریحی موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے ۔امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کردیا۔آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کوخطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے ۔امریکہ کون ہوتاہے جو ہماری خودمختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہاہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کررہاہے ۔آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے ؟اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیارہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیاہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے ؟‘۔انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ’امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتاہے جب کہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کاسب سے بڑا جنم داتاوہ خود ہے ۔‘ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہاکہ ’ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیے ؟کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے ؟‘۔ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتاہے اور نہ اپنی خودمختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا ۔ان کا یہ کہناکہ’ایرانی قوم کی خودمختاری ان کےہاتھ میں ہے ‘امریکی منصوبوں پر پانی پھیردیتا ہے ۔کیونکہ امریکہ ایران کی خودمختاری پر ضرب لگاناچاہتاہے جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پرہی سوال اٹھادیا۔انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کردیاجس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی ۔ جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا۔جب کہ امریکہ نےحالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA)کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعہ ایران کو موصول ہوچکی ہے ،کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طورپر ختم کرنے کامطالبہ کیاہے ۔
امریکی تجویز ،جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کردیاہے ،کو دوحصوں میں منقسم کیاجاسکتاہے ۔پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسراحصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتاہے۔جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعہ یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گاکیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہوجائے گا۔گویاکہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خودکفیل بننے سے روکناہے ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے ۔اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعہ ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنانہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خودکفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیداکرناہے ،جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے ۔ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے ۔اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابونہیں پایاجاسکااور آج اس کی طاقت کا لوہادنیامان رہی ہے ۔مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں ۔مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوناچاہیے ۔مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گاکیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اوردوراندیش قیادت موجود ہے ۔جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے ،اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرناچاہیے ۔