-
مسلمانوں کو مخلص قیادت اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت
- سیاسی
- گھر
مسلمانوں کو مخلص قیادت اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت
404
M.U.H
27/11/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
آرایس ایس ہندوستان کی معروف متنازع سماجی تنظیم ہے ۔جب کہ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے لیکن آرایس ایس نے ہمیشہ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے انکار کیا ۔اس تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت نے کئی بار کہاہے کہ سنگھ سیاست میں مداخلت نہیں کرتی اور نہ بی جے پی سے اس کا کوئی سیاسی رابطہ ہے لیکن اگر کوئی اس سے مدد کا مطالبہ کرتاہے تو وہ دریغ نہیں کرتے ۔جب ان سے پوچھاگیاکہ کیا بی جے پی کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت نے کبھی ان سے مدد کا مطالبہ کیا تو انہوں نے صاف انکار کردیااور کہاکہ اگر بی جے پی کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے کبھی سنگھ سے مدد کا مطالبہ کیاتو وہ انکار نہیں کریں گے ۔اس پر تو زیادہ بحث نہیں کی جاسکتی کہ آیا سنگھ بی جے پی کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کی پشت پناہی کرے گایا نہیں ،لیکن بھاگوت نے یہ اعتراف تو کرہی لیاتھاکہ بی جے پی کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے ۔وہ یہ اقرار کریں یا نہ کریں کہ بی جے پی ان کی حمایت کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتی مگر پورا ملک اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سنگھ کے سو سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ سے یوم آزادی کے موقع پر اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ۔صرف اتناہی نہیں تاریخی حقائق کے برعکس ہندوستان کی آزادی میں بھی سنگھ کے کردار کو کافی سراہا۔ظاہر ہے جہاں حکومت اپنی منشاکے مطابق نصاب اور تاریخ میں تبدیلیاں کروارہی ہو وہاں اس طرح کے دعوے بھی کچھ دیر کے لئے حقیقت مان لئے جاتے ہیں ،ورنہ سنگھ کی اصلیت کسی سے چھپی نہیں ہے ۔اس وقت بی جے پی کے بجائے اقتدار سنگھ کے ہاتھوں میں ہے اور تمام لیڈران اس کی کٹھ پتلی ہیں ۔اگرا یسانہ ہوتا تو وزیر اعظم کبھی لال قلعہ کی فصیل سے تاریخی حقائق کے برخلاف سنگھ کی تعریف نہیں کرتے ۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی بنیاد 1925ء میں ناگپور میں ڈاکٹر کیشور بالی رام ہیڈگیوار نے رکھی۔البتہ اس کے نظریہ سازوں میں سب سے زیادہ اہمیت دامودر ساورکر کی ہے جس سے ہیڈگوار بھی کافی متاثر تھے ۔انہیں ساوکر کو آج’ ویرساورکر‘ کہہ کر متعارف کروایاجارہاہے جب کہ انہیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی ۔آر ایس ایس کو دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم کہا جاتا ہے۔لیکن اعدادوشمار عوامی نہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہاجاسکتاکہ کتنے لوگ اس کےرکن ہیں۔آر ایس ایس کوئی رجسٹرڈ تنظیم نہیں ہے اور اس وجہ سے اس کی شفافیت اور جوابدہی کی کمی پر اکثر تنقید کی جاتی ہے۔آر ایس ایس کی فنڈنگ پر بھی مسلسل سوال اٹھتے رہے ہیں ۔حالیہ کچھ سالوں میں کانگریس نے ان کی فنڈنگ کی شفافیت پرپر سوال اٹھائے ہیں کیونکہ سنگھ انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتا۔ان کے مطابق ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت چلنے والی کوئی بھی تنظیم اس کے دائرے میں نہیں آتی کیونکہ اس میں باہر سے کوئی پیسہ نہیں لیاجاتا ،خواہ کوئی سنگھ کے کام کے لیے رضاکارانہ طور پر چندہ ہی کیوں نہ دے۔ آر ایس ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ گرودکشنا (گرو کے اعزاز میں دی گئی رقم) کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ ان کے رضاکار زعفرانی پرچم کو اپنا گرو مانتے ہوئے سال میں ایک بار گرودکشنا دیتے ہیں۔ان کے اس دعوے کی اپوزیشن جماعتوں نے ہمیشہ تنقید کی اور ان کی فنڈنگ کی جانچ کا مطالبہ کیاہے ۔البتہ یہ کام فی الوقت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔
آرایس ایس کا بنیادی مقصد ہندوستان میں ایک متحد، مضبوط اور ’ہندو راشٹر‘یعنی ہندو قوم کے نظریے پر مبنی ریاست قائم کرنا ہے۔ آرایس ایس خود کو ایک ’سماجی و ثقافتی تنظیم‘ کے طور پر پیش کرتی ہے، مگر اس کے نظریات اور عملی سرگرمیوںنے ہندوستان کی سیاست کا رخ طے کیاہے ۔گوکہ آرایس ایس کے تحریری منشور میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر اعتراض کیاجاسکے کیونکہ ان کا منشور کاغذ کے بجائے عملی میدان میں نظر آتاہے ۔مسلمانوں کی تنظیموں کے برعکس جو اپنے تمام اغراض و مقاصد کو کاغذ پر نقل کرکے اپنی پیٹھ آپ تھپتھاتے ہیں لیکن ان کو کبھی عملی جامہ نہیں پنہاسکے ۔سنگھ کا مرکزی نظریہ ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کا نفاذ ہے جس کے مطابق بھارت ایک جغرافیائی ملک نہیں بلکہ ایک ’ہندو تہذیب و ثقافت ‘ کا حامل ملک ہے ۔اسی بناپر بھاگوت ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کا ہر وہ شہری ہندوہے جس کے آباءواجداد ہند نژاد رہے ہیں ۔اسی نظریے کے تحت سنگھ ’گھر واپسی ‘ کی تحریک چلاتاہے تاکہ آبائی ہند نژاد مسلمانوں کو ہندوبنایاجاسکے ۔ان کے مطابق بھارتی ثقافت دراصل ہندوثقافت ہے اور دیگر مذاہب یا ثقافتیں بیرونی ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں صرف ہندوثقافت کو اپناناچاہیے اور بیرونی ثقافتوں کے لئے یہاں کوئی گنجائش نہیں ۔اس تنظیم کا پورا ڈھانچہ قدیم ہندوآئین کی روشنی میں ترتیب دیاگیاہے اور وہ آئین ہند کو ’منوسمرتی ‘ کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔سنگھ کا دعویٰ ہے کہ وہ ذات پات اور طبقاتی نظام کو ختم کرناچاہتے ہیں مگر جس مذہبی کتاب کو ہندوستان میں رائج کرنے کی وہ بات کرتے ہیں اسی نے طبقاتی نظام کی بنیادوں کو مضبوط کیاہے ۔ان کے مطابق ہندوستان کے تمام غیر ہندوباشندے جیسے مسلمان اور عیسائی یا تو ہندو ثقافت کو مکمل طورپر قبول کریں یا پھر دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں ۔آج کل ان کی سرگرمیاں اس میدان میں زیادہ دیکھی جارہی ہیں۔
آرایس ایس کو باضابطہ کسی سیاسی یا سماجی تنظیم کے طورپر رجسٹرڈ نہیں کرایاگیامگر بی جے پی کو اس کی سیاسی شاخ سمجھاجاتاہے ۔جب کہ سنگھ اس سے انکار کرتی رہی ہے ۔اس کا کہناہے کہ وہ بی جے پی کو اس وقت تک سیاسی پشت پناہی دیتے رہیں گے جب تک وہ ہندوقوم پرستی کے نظریے پر عمل پیراہے ۔بی جے پی کے علاوہ بھی آرایس ایس کی ذیلی شاخیں ہیں لیکن اس کو بھی اعلانیہ تسلیم نہیں کیاجاتا۔ان میں وشوو ہندوپریشد ،جو مذہبی تحریکات کے لئے جانی جاتی ہے ۔بجرنگ دل نوجوانوں کی متحرک تنظیم ہے ۔بھارتیہ مزدو سنگھ اور بھارتیہ کسان سنگھ کسانوں اور مزدور وں کو جوڑنے کے لئے بنائی گئی ہیں ۔آرایس ایس کی سب سے نمایاں تحریک ۱۹۸۰ء میں رام مند کی تعمیر کے لئے شروع ہوئی تھی جس کو ۲۰۱۴ء میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد کامیابی ملی جب سپریم کورٹ نے تاریخی شواہد کے برخلاف ’آستھا ‘ کی بنیاد پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ سنایا۔اس فیصلے پر سیاسی اثر صاف تھاجس کا اعتراف اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے بھی کیااور پھر چندر چوڈ بھی جانے انجانے میںاس طرف اشارہ کرگئے۔۲۰۱۴ءمیں بی جے پی حکومت کی تشکیل کے بعد آرایس ایس کو مزید تقویت حاصل ہوئی اور اب یہ تنظیم بھارت کی سیاست ،صحافت ،تعلیمی اور سرکاری اداروں پر گہرا اثر رکھتی ہے ۔
آرایس ایس مسلمانوں کو ’درانداز ‘تصور کرتی ہے، یعنی وہ اس زمین کے ’اصل باشندے‘نہیں بلکہ ’حملہ آوروں‘کی نسل ہیں۔یہ جملے وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی زبان سے اکثر سننے کو ملتے ہیں جو دراصل سنگھ کا بنیادی ایجنڈہ ہے ۔ان کا موقف ہے کہ اسلام نے ہندوستانی ثقافت کو نقصان پہنچایا، اس لیے مسلمانوں کو اپنی شناخت ہندو تہذیب میں ضم کردینی چاہیے۔اسی تناظر میں وہ اسلامی تعلیمات پر مسلسل حملہ وررہتے ہیں اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے ہندوثقافت کو ان پر تھوپنا چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کے بجائے مسلمان اور ہندوایک آئین پر عمل کریں جس کے لئے یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کے لئے این آرسی کو نافذ کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ان کے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کرکے سماجی طورپر انہیں تنہا کرنے کا عمل جاری ہے ۔اس میں بی جے پی کے قدآور لیڈر بھی شامل ہیں جو ہمیشہ ’دیش کے غداروں کو ،گولی مارو...‘ جیسے نعرے لگاتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس راہ میں سب پر سبقت لے گئے ۔اترپردیش سنگھ کے نظریات کی تجربہ گاہ بن چکی ہے ۔جب بھی انہیں کسی سیاسی او ر سماجی لایحۂ عمل کو جانچنااور پرکھناہوتاہے تو سب سے پہلے اترپردیش میں اس کا تجربہ کیاجاتاہے ۔
مختصر یہ کہ آرایس ایس کے نظریات ہندوستان کے سماج اور سیاست پر گہرا اثر رکھتے ہیں ۔اس تنظیم کے نظریات اور پالیسیاں بھارت کے سیکولر ڈھانچے اور اقلیتوں کے حقوق کے منافی ہیں ۔اس تنظیم نے بھارت میں سیاسی اور سماجی تشکیل کے بجائے انتشار کو جنم دیاہے ۔اس وقت ہندوستان میں جو سماجی اور سیاسی افراتفری موجود ہے اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے ،جس کےخلاف سیکولر خیال لوگ مسلسل جدوجہد کررہے ہیں ۔مسلمان اس تنظیم کے سامنے اس لئے بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے پاس قیادت کا فقدان ہے ۔آرایس ایس کی طرح فعال اور قوم کو متحد رکھنے کے لئے کوئی تنظیم موجود نہیں ہے ۔جب تک مسلمان اس خلاکو پُرنہیں کرتے ان کے مسائل بھی حل نہیں ہوں گے ۔