-
وزیر اعظم مودی کا دورۂ امریکہ
- سیاسی
- گھر
وزیر اعظم مودی کا دورۂ امریکہ
671
m.u.h
26/06/2023
1
0
تحریر:عادل فراز
گزشتہ دنوںوزیر اعظم نریندر مودی چار روزہ امریکی دورے پر تھے ۔۲۱ جون سے ۲۴ جون تک وہ امریکی صدر جوئےبائیڈن کے مہمان رہے ۔چونکہ یہ دعوت امریکی صدر کی طرف سے دی گئی تھی ،اس لئے اس دورے کی میزبانی کے فرائض بھی صدر بائیڈن اور ان کی اہلیہ نے سرانجام دیئے ۔جوئےبائیڈن نے وزیر اعظم مودی کا شاندار استقبال کیا،یہ الگ بات کہ وہ انہیں لینے کے لئے ائیرپورٹ پر موجود نہیں تھے ۔یہ اعزاز فقط جواہر لال نہرو کو حاصل رہا ۔وہ دو بار امریکہ کے دورے پر گئے اور دونوں بار امریکی صدر نےتمام پروٹوکول توڑ کران کا ائیرپورٹ پر استقبال کیا۔اس سے جواہر لال نہرو کے سیاسی وقار کا اندازہ بھی ہوتاہے اورمودی جی کی خودساختہ عظمت کا بھی ۔روایت کے مطابق وزیر اعظم مودی کو وہائٹ ہائوس میںعشائیہ پر مدعوکیا گیا اور امریکی پارلیمنٹ میں انہیں خطاب کے لئے بھی دعوت دی گئی۔اس موقع پر مختلف اہم معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے جن میں دفاعی ،ٹیکنالوجی ،معدنیات اور سیمی کنڈکٹر پر مشتمل اہم معاہدے شامل ہیں ۔
ہندوستان ایک باوقار اور عظمت آثار ملک ہےجس کے ساتھ منسلک ہونے کی تمنا ہر کسی کو ہے ۔گوکہ گزشتہ نو سالوں میں ہندوستان کے وقاراور عظمت کو عالمی سطح پرناگفتہ بہ ٹھیس پہونچی ہے ،جس کا اندازہ اس دورے پر وزیر اعظم مودی کو بھی ہواہوگا،لیکن اب بھی اس وقار اور عظمت کو دوبارہ بحال کیا جاسکتاہے ۔بشرطیکہ وزیر اعظم زعفرانی طاقتوں کی پالیسیوں پر عمل کے بجائے ہندوستانی آئین کے مطابق کام کریں ،جیساکہ امریکہ میں انہوں نے کئی سوالوں کے جواب دیتے ہوئے آئین ہند کی عظمت کا اظہار کیا۔ظاہرہے آئین کاغذ کے پلندے کو نہیں کہتے بلکہ جو نافذالعمل ہو اور جس کے اثرات خارج میں نظر آئیں ،باعظمت آئین وہی ہوتاہے ۔وزیر اعظم سے پریس کانفرنس میں جب اقلیتوں کے حقوق ،تحفظ اور ہندوستان میں کمزور ہوتی جمہوری قدروں پر سوال کیا گیا تو انہوں نے اصل سوال کا جواب دینے کے بجائے آئین ہند کی عظمت اور اس کی ہمہ گیریت کو روشن کیا ۔ظاہر ہے وزیر اعظم مودی سوال کی حساسیت اور ہندوستانی سیاست کی حقیقت سے بخوبی واقف تھے ،اس لئے سوال کا جواب دینے کے بجائےوہ آئین ہند کی عظمت کابکھان کرتے رہے ،جس پر زعفرانی تنظیموں نے کاری ضرب لگائی ہے ۔انہوں نے ایک بار بھی اس آئین کو مسترد کرنے کی کوشش نہیں کی جو گزشتہ کئی سالوں سے زعفرانی و یرقانی تنظیموں کی طرف سے ترتیب دیاجارہاہے ،جس کے کئی مسودے دھرم سنسدوں میں پیش کئے جاچکے ہیں ۔
اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایساپہلی بار ہواکہ جب بیرون ملک ہندوستانی وزیر اعظم سے اقلیتوں کے حقوق اور عدم تحفظ پر سوال کیا گیا۔اس سے پہلے کبھی یہ اتفاق رونما نہیں ہوا۔اس کا مطلب یہ ہواکہ اقلیتوں کے حقوق اورتحفظ کا مسئلہ ہندوستان کے باہر بہت سنجیدگی سے لیا گیاہے ۔اس کی بنیادی وجہ بی جے پی لیڈروں کی نفرت آمیز تقریریں،دھرم سنسد میں مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ اور نسل کشی کے لئے دئیے گئے بیانات،مختلف ریاستوں میں بے گناہ اقلیتوں پر جاری حملے،ریاستی تشدد،فرقہ وارانہ فسادات اورایسے حسّاس مسائل پر مرکزی حکومت کی مجرمانہ خاموشی ہے ۔گزشتہ نو سالوں میں وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی اکثریتی طبقے کے ووٹوں کے حصول کے لئے نفرت انگیزی اور تقسیم کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے ۔وزیر اعظم نے خود کئی بار مسلمانوں کے خلاف زہر پاشی کی ہے ،جس کے نتائج دورۂ امریکہ کے وقت سامنے آئے ۔انہوں نے اپنی ایک انتخابی تقریر میں کہاکہ ’فسادی کون ہے انہیں ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتاہے ‘۔ ایک دوسرے موقع پر انہوں نے شمشان اور قبرستان کو موضوع گفتگوبنایا۔انہوں نے گجرات کی ایک انتخابی ریلی میں کہا تھاکہ کانگریس دہشت گردی کے تئیں اس لئے نرم رویہ رکھتی ہے کیونکہ اسے ایک مخصوص فرقے کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔اس طرح انہوں نے ایک مخصوص فرقے کو دہشت گردی سے جوڑ دیا تھا۔وزیر اعظم کو معلوم ہوناچاہیے کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ’وزیر اعظم ‘ کی حیثیت سے عالمی سطح پر نوٹس کی جاتی ہے ۔لیکن انہوں نے ہمیشہ اکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے نفرت اور تقسیم کی سیاست کا سہارالیا،جس کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑرہاہے۔
وزیر اعظم مودی کے دورۂ امریکہ سے ٹھیک پہلے امریکہ کے تقریباً ۷۰اراکین پارلیمنٹ نے صدر بائیڈن کو خط لکھ کر ناراضگی کا اظہارکیا ۔انہوں نےپارلیمنٹ میں وزیر اعظم مودی کے خطاب کا بھی بائیکاٹ کیا ۔اس کے علاوہ انہوں نے مودی سرکار میں پریس کی آزادی،سیاسی جذبۂ انتقام، اقلیتوں کی حق تلفی اور عدم تحفظ کے مسئلے کو بھی اٹھایا۔امریکہ کی سڑکوں پر بھی اس دورہ کی مخالفت نظر آئی ۔مظاہرین ’گوبیک مودی‘ کے بینر وں اور پوسٹروں کے ساتھ احتجاج کررہے تھے ۔ان احتجاجوں کا بھی بنیادی مطالبہ ہندوستان میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا اور مختلف موقع پر اقلیتوں کاہونے والا قتل عام تھا۔ان احتجاجی مظاہروں کو میڈیا میں جگہ نہیں دی گئی کیونکہ میڈیا سرمایہ داروں کی داشتہ سے زیادہ اہمیت نہیںرکھتا ۔وہ بھی اس وقت کہ جب مکیش امبانی جیسے سرمایہ دار خودوزیر اعظم مودی کے ساتھ وہائٹ ہائوس میں دئیے جارہے عشائیہ میں شامل ہورہے تھے،تو بھلامیڈیا اپنے آقائوں کےخلاف جاکر تلخ حقائق کیسےدکھلاسکتا تھا؟
کانگریس دہشت گردی کے تئیں نرم رویہ اس لئے اختیار کرتی ہے کیونکہ اسے ایک مخصوص فرقے کے ووٹ چاہئیں۔
ہندوستانی میڈیا اور تجزیہ نگاروں سے بہتر کردار تو مقامی میڈیا اور سابق امریکی صدر براک اوبامانے اداکیا ۔امریکی میڈیا نے مودی مخالف احتجاجی مظاہروں اور وزیر اعظم سے جمہوریت پر کئے گئے سوالوں کو سنجیدگی سے اخبارات میں جگہ دی۔براک وباما نے سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں نریندر مودی سرکار کو اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں بازپرس کا مجاز قراردیا ۔انہوں نے کہاکہ ’’ اگر وہ صدر ہوتے تو وہ وزیر اعظم مودی سے ہندوستان کی موجودہ صورتحال پر ضرور بات کرتے ،بائیڈن کو بھی ان سے اقلیتوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے ‘۔اوبا ما نے چین میں ایغور مسلمانوں پر جاری ظلم و بربریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’ بائیڈن کو وزیر اعظم مودی سے اقلیتوں اور مسلمانوں کے حقوق پر بات کرنی چاہیے ‘۔او باما کے اس بیان کے بعد بائیں بازو کی جماعتیں سخت ناراض ہیں ۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے تو کیرالا کے مسلمانوں کو دھمکیاں دینا شروع کردیں ،جیساکہ کیرالا کے مسلمانوں نے اوباما کو اپنے حقوق اور تحفظ کے مسئلے پر بولنے کے لئے مجبور کیاہو۔بائیں بازو کے سخت گیر بیانات اور انتہائی ناراضگی سے یہ تو ظاہر ہوگیاکہ امریکہ میں ہندوستانی اقلیتوں کا مسئلہ اٹھایا جانا بہت حسّاس معاملہ تھا ،جس کو انتہاپسند تنظیمیں برداشت نہیں کرپائیں ۔گویاکہ ان کے کریہہ چہروں سے نقاب نوچ لی گئی ۔
یک قطبی نظام کے احیا کی کوشش
دنیا اس وقت کثیر قطبی نظام کی طرف گامزن ہے ۔یک قطبی نظام کا یکسر خاتمہ ہوچکاہے ۔امریکہ کی چودھراہٹ پر مشرق وسطیٰ نے کاری ضرب لگائی ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ آج امریکہ عالمی تنہائی کاشکار ہے ۔چین ،روس اور ایران کے اتحاد نے نئے عالمی نظام کو متعارف کروایا جس میں اب سعودی عرب سمیت کئی مسلمان ملک شامل ہوچکے ہیں ۔اس نئےنظام کی تقویت کے لئے مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقتیں سرگرم عمل ہیں ،جن کا اتحاد استعماری طاقتوں کے لئے بڑا چیلینج ہے ۔امریکہ ہندوستان کواپنے ساتھ لاکر اس نظام کو کمزور کرنا چاہتاہے ،کیونکہ ہندوستان اور چین کے درمیان جغرافیائی اختلاف موجود ہے
۔دوسری طرف چین اور امریکہ کے درمیان بھی کشیدگی چلی آرہی ہے۔اس لئے امریکہ ہندوستان کی چین دشمنی کا فائدہ اٹھانا چاہتاہے جس کا اندازہ خود ہندوستان کو بھی ہے۔خاص طورپر روس اور یوکرین جنگ میں امریکہ ہندوستان کو یوکرین کی حمایت میں دیکھنا چاہتاہے ۔امریکی صدر جوئےبائیڈن نے استقبالیہ تقریب میں روس اور یوکرین جنگ کی طرف بھی اشارہ کیا تھا ،جس کے سلسلے میں یقیناً وزیر اعظم مودی سے گفتگو ہوئی ہوگی،لیکن اس بات چیت کے اہم نکات منظر عام پر نہیں آئیں گے۔البتہ ہندوستان کبھی روس کے خلاف جاکر امریکہ کی محبت میں یوکرین کی حمایت نہیں کرے گا ،کیونکہ اس کے دیرپا نقصانات کا اندازہ ہندوستان کو بخوبی ہے ۔اس کے باوجود امریکہ ہندوستان کو یوکرین کی حمایت میں کھڑا کرنے کی پوری کوشش کرے گا ،لیکن اس کی یہ کوشش رائیگاں ثابت ہوگی ۔یوں بھی مشرق وسطیٰ کے اکثر ملک روس کےساتھ متحد ہیں ،یا پھر وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں ،اس لئے اس راہ میں بہت پیش رفت ممکن نہیں ہے ۔
خیر!وزیر اعظم مودی کا دورۂ امریکہ بہت زیادہ موضوع بحث رہاہے ۔امتداد وقت کے ساتھ اس دورہ کے نتائج بھی سامنے آجائیں گے ۔اس وقت دنیا روس اور یوکرین جنگ میں ہندوستان کے موقف کا انتظار کررہی ہے۔آیا ہندوستان اسی طرح غیر جانبدار رہے گا یا پھر اس کے موقف میں تبدیلی رونما ہوگی ۔وہ بھی اس وقت کہ جب روس میں صدر پوتین کے خلاف بغاوت سراٹھارہی ہے ۔پل پل حالات بدل رہے ہیں اور بدلتےرہیں گے۔