تسنیم کوثر
کچھ دنوں پہلےاصغر بشیر صاحب کا ایک مضمون نظر سے گذرا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ صحافت جدید دور کا سب سے کٹھن کام ہے۔ آج معلومات کثیر جہتی ہونے کے ساتھ ساتھ جذبات کی حامل بھی ہوتی ہیں۔ ان جذبات کا مختلف لوگوں پر مختلف اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے فرض شناس صحافی اپنی جان گنوا دیتے ہیں یا زندگی میں انہیں کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صحافت ہتھیار بن کر ملک کے لیے ہراول دستے کا کام کرتی ہے اور ایسی شکست دیتی ہے کہ دشمن اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اس کے برعکس یہ بات حیرت سے خالی نہیں کہ دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی شفاف و آزاد صحافت سے لطف اندوز ہو سکتی ہے۔ باقی میں سے ۴۲ فیصد آبادی مکمل معذور و پابند صحافت سے سامنا کرتی ہے۔ معذور صحافت کسی طور پر بھی اپنا فرض ادا نہیں کرسکتی بلکہ کسی نہ کسی طاقت ور کے ہاتھ میں کھلونا بنی رہتی ہے۔ ہمیں بطور صحافی آج خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی طاقت کا استعمال پورے اخلاص اور ایمانداری سےمعاشرے کی فلاح اور انسانی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں؟
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم ابھی قوم کہلوانے کے لیے بنیادی ضروری خصوصیات طے کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ جب یہ مرحلہ طے ہوگا تب ہم بطور قوم اپنے مقام کے تعین کی ضرورت محسوس کریں گے۔ ہر آنے والا دن ہمارے لیے نئے مسائل اور نئے چیلنجز لاتا ہے۔ ان مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں ہر بار وہی روایتی قضیوں کو ادھیڑنا اور اکھیڑنا پڑتا ہے جن کے حالات حاضرہ کے مطابق جوابات کو ہم قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے حالات میں صحافت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دوسروں سے زیادہ ہونا چاہیے۔
کوبرا پوسٹ کا میڈیا پہ کیا گیا اسٹنگ آپریشن جب سامنے آیا تو مجھے انکا مضمون یاد آگیا ۔ کوبرا پوسٹ نے اس سٹنگ آپریشن کا نام آپریشن 136 رکھا ہے جو 2017ء کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کی 136 ویں پوزیشن کے حوالے سے ہے۔ بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں سٹنگ آپریشن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ملک میں پیڈ نیوز یعنی پیسے لے کر خبریں شائع کرنا بڑے پیمانے پر قابل قبول ہے۔ کوبرا پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ اس نے 7 ٹی وی چینلوں، 6 اخبارات، 3 ویب پورٹلز اور ایک نیوز ایجنسی کے عملے کے ساتھ سٹنگ آپریشن کیا ہے۔ کوبرا پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے بہت سے نیوز چینل نے ہندوتوا کے نظریے کے فروغ کی مہم چلانے اور حزب اختلاف کے بہت سے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے بعض رہنماؤں کے خلاف الزام تراشی کرنے کے لیے 6 کروڑ روپے سے لے کر 50 کروڑ رو پے تک کی پیشکش کو قبول کیا۔
کوبرا پوسٹ کا کہنا ہے کہ ابھی اس نے اس سٹنگ آپریش کا پہلا حصہ ہی جاری کیا ہے اور اس کا اگلا حصہ اگلے ماہ اپریل میں جاری کیا جائے گا۔ سٹنگ آپریشن میں کوبرا پوسٹ کے صحافیوں نے میڈیا ہاؤس کے نمائندوں کے ساتھ ہندوتوا کو فروغ دینے اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف الزام تراشی کے لیے نقد رقم دینے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کیا۔ کوبرا پوسٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جن میڈیا ہاؤسز کے نمائندوں کو پیسوں کی پیشکش کی ان سب نے ان کی پیشکش کو قبول کیا اور انہیں دوسرے نادر طریقے بھی بتائے۔ اس دن بھری دو پہری میں دہلی کا پریس کلب کھچا کھچ بھرا تھا۔ صحافیوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔اسی دوران تحقیقاتی اور سنسنی حیز تفتیشی رپورٹز کے لیے مشہور کوبرا پوسٹ نے ایک بڑا انکشاف کیا۔اسکرین پر آپریشن 136 آیا اور اعلان کیا گیا کہ میڈیا سے متعلق کیا جانے والا یہ سب سے بڑا اسٹنگ آپریشن ہے۔اس انکشاف کے دوران ایک ایک کرکے متعدد میڈیا انڈسٹریز کے نام سامنے آنے لگے۔ صحافیوں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ یہ بے چینی میڈیا کے شرمناک چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھی۔ تمام صحافیوں کے ذہن میں یہ چل رہا تھا کہ کہیں ان کا ادارہ تو اس کی زد میں نہیں آ جائےگا؟
کوبرا پوسٹ کے اس اسٹنگ آپریشن میں انڈیا ٹی وی، دینک جاگرن، پنجاب کیسری، ہندی خبر، سب ٹی وی، ڈی این اے، امر اجالا، یو این آئی، 9 ایکس ٹشن، سماچار پلس، ایچ این این لائیو 24، سوتنتر بھارت، اسکوپ ووپ، ریڈف ڈاٹ کام، انڈیا واچ، آج اور سادھنا پرائم نیوز وغیرہ سر فہرست تھے۔پھر دھیرے دھیرے پریس کانفرنس کی میز سے ٹی وی چینلوں کے لوگ کم ہو تے گئے۔اور بچے رہ گئے ہم۔ ۔۔جی ہاں ہم۔ ۔۔کیونکہ ہم اس کمیونٹی سے آتے ہیں جہاں ذرائع ابلاغ حرام کے زمرے میں آتا ہے اور مخیر حضرات ہزار اپیل کے باوجود مچندوں کے ٹولوں کی اعانت کو عین دینی فریضہ اور ایمان افروز ی کی قوائد مان کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ اللہ میاں کو جنت میں ایکزکیوٹو کلاس میں اپنی سیٹ بک کرنے کی رشوت دے کر جہاد کرتے ہوئے شہید کا درجہ پاتے ہیں۔ حیرت ہے صاحب کس مٹی کے بنے ہیں ہم ؟ آخر کب ہم بطور قوم اپنے مقام کے تعین کی ضرورت محسوس کریں گے؟
واقعی بہ حیثیت مسلمان ہمیں مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ہر بار وہی روایتی قضیوں کو ادھیڑنا اور اکھیڑنا پڑتا ہے جن کے حالات حاضرہ کے مطابق جوابات کو ہم قبول کرنے کو تیار نہیں۔ نتیجہ ! ڈھاک کہ تین پات اب دیکھئے کہ 14 مارچ کو بہار اور اتر پردیش میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے پہلے ایک کانفرنس کی تاریخ کا اعلان کیا گیا، پٹنہ میں 15 اپریل کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اورامارت شریعہ بہار ‘دین بچاؤ، ‘ملک بچاؤ کا نعرہ لگائیں گے۔اپنی دانست میں بڑا اہم دینی و دستوری کام انجام دیں گے اس بیچ ملی تنظیمیں مسلمان عورتوں کو سڑک پر اتار چکی ہیں۔ برقعہ ایک انقلابی سمبل بنتا جا رہا ہے۔ اور آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بہار اور بنگال منافرت کی بھٹی میں کس طرح دہک رہے ہیں۔ گورکھپور، پھولپور اور بہار میں لوک سبھا ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد حالات اس طرف مڑ رہے ہیں جسے عرف عام میں پولرائزیشن کی سیاست کہتے ہیں۔ یہ کون کر رہا ہے ؟ کس سے یہ کروایا جا رہا ہے ؟ کیوں ملی تنظیموں کے سربراہ بظاہر دین کی حفاظت اور بباطن اپنی سات پشتوں کے مفاد کی حفاظت کرتے دکھتے ہیں ؟کوئی ان سے پوچھے کہ جن عورتوں کو دہلیز لانگھنے بھر سے طلاق دے دی جاتی ہے انکوآج کے دور میں کس بات کے لئے سڑک پہ اتارا گیا ؟کیا واقعی بات بس اتنی سی ہے کہ انہیں طلاق ثلا ثہ بل کے احتجاج میں ہجوم کی طرح اکٹھا کیا گیا ہے؟
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)