اقوام متحدہ نے عراق اور شام میں برسرپیکار سخت گیر جنگجو گروپ دولتِ اسلامی پر الزام عاید کیا ہے کہ اس نے لوگوں کو بڑے پیمانے پر ہلاک کیا ہے۔ اس کے جنگجوؤں نے عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی تسکین کے لیے باندیاں بنا رکھا ہے اور بچوں کو لڑائی کے لیے جبری بھرتی کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے داعش کی کارستانیوں اور ان کے خلاف کارروائیوں سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ قریباً پانچ سو انٹرویوز پر مبنی ہے اور اس میں عراقی حکومت پر بھی دیہات ،اسکولوں اور اسپتالوں پر بلا امتیاز فضائی حملے کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے جن کے نتیجے میں عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 2014ء میں عراق میں تشدد کے واقعات میں 9347 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔17386 زخمی ہوئے ہیں۔ان میں نصف افراد داعش کے جون کے اوائل میں شمالی عراق کے شہروں اور قصبوں پر قبضے کے بعد ہلاک ہوئے ہیں۔
عراق کے لیے اقوام متحدہ کے معاون مشن اور اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ہائی کمشنر کے دفتر نے مشترکہ طور پر یہ رپورٹ تیار کی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے بڑے منظم انداز میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ان میں شہریوں ،شہری ڈھانچے پر براہ راست حملے،ان کے اہدافی قتل ،اغوا ،عصمت دری اور خواتین اور بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد،بچوں کی لڑائی کے لیے جبری بھرتی،مذہبی مقامات کی بے توقیری اور انھیں حملوں میں تباہ کرنا،لوٹ مار اور بنیادی آزادیوں کے حق سے انکار جیسے جرائم شامل ہیں۔ رپورٹ میں داعش اور اس کے معاون جنگجو گروپوں پر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں ترکمن ،شبک ،عیسائیوں ،یزیدیوں، صابیوں ،قعقاعی،فیلی ،کردوں اور عرب اہل تشیع کو جان بوجھ کر منظم انداز میں حملوں میں نشانہ بنانے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے صوبہ صلاح الدین میں ایک سابق فوجی اڈے پر حملے کے بعد گرفتار کیے گئے ڈیڑھ ہزار فوجیوں کوصرف ایک دن 12 جون کو فوری انصاف کی عدالت لگا کر سزائے موت سنا دی تھی اور انھیں بعد میں سروں میں گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر زید رعد الحسین کا کہنا ہے کہ داعش اور اس کے معاون مسلح گروپوں کی بہت سی کارروائیاں جنگی جرائم اور انسانیت مخالف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔انھوں نے اس صورت حال کے پیش نظر عراقی حکومت پر زوردیا ہے کہ وہ ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت کی رکنیت سے متعلق روم معاہدے پر دستخط کردے۔عراق نے اس معاہدے پر ابھی تک دستخط نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے اس کے جنگی جرائم اور انسانیت مخالف جرائم کے ملزموں کے خلاف آئی سی سی میں مقدمات نہیں چلائے جاسکتے ہیں۔