ایرانی عوام پورے جوش و جذبے سے قدس کی حمایت کے میدان میں اترگئے: آیت اللہ خامنہ ای
2717
m.u.h
29/04/2022
قائد اسلامی انقلاب نے فرمایا ہے کہ آج ملک میں ہر جگہ یوم القدس مارچ میں عوام کی موجودگی بڑے جوش و جذبے اور حقیقی معنوں میں مہاکاوی تھی۔ عوام کی یہ تحریک عظیم اور بابرکت تھی اور فلسطین میں اپنے جسم و جان سے بیت المقدس کا دفاع کرنے والوں کو اس عوامی تحریک سے حوصلہ اور تقویت ملے گی۔
ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ سید "علی خامنہ ای" نے آج بروز جمعہ کو عالمی یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا کے تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عالمی یوم قدس کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے تعلق سے انتہائی کلیدی نکات پر روشنی ڈالی۔ 27 رمضان المبارک 1443 ہجری قمری مطابق 29 اپریل 2022 کو رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب ٹی وی چینلوں اور نشریاتی اداروں سے براہ راست نشر کیا گيا۔ خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
الحمد للّه رب العالمین و الصلاة والسلام علی سیّد الخلق و اشرف البریة سیّدنا محمدٍ المصطفی خاتم المرسلین و علی آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین.
دنیا بھر میں مسلم بھائیوں اور بہنوں کو سلام و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ سلام ہو دنیائے اسلام کے نوجوانوں پر! سلام ہو فلسطین کے شجاع و غیور جوانوں اور تمام فلسطینی عوام پر!
ایک بار پھر یوم قدس کی آمد ہوئی ہے۔ قدس شریف دنیا بھر کے مسلمانوں کو آواز دے رہا ہے۔ جب تک قدس پر بد قسمتی سے غاصب و جرائم پیشہ صیہونی حکومت قابض ہے اس وقت تک ہر دن یوم قدس سمجھا جانا چاہئے۔ قدس شریف فلسطین کا قلب ہے اور پورا غصب شدہ ملک سمندر سے لیکر دریا تک قدس کا ہی تسلسل ہے۔ ملت فلسطین ہر دن ماضی سے زیادہ واضح طور پر یہ ثابت کر رہی ہے کہ کم نظیر شجاعت کے ساتھ ظالم کے مد مقابل کھڑی ہے اور بدستور ڈٹی رہے گی۔ اپنی قربانیوں کے ذریعے نوجوان، فلسطین کی ڈھال بن گئے ہیں اور ایک مختلف مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔
اس سال یوم قدس ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ ساری چیزیں فلسطین کے حال و مستقبل میں نئے توازن قائم ہونے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ آج فلسطین اور پورے مغربی ایشیا میں نا قابل شکست قوت ارادی نے ناقابل تسخیر صیہونی فوج کی جگہ لے لی ہے۔ آج وہ جرائم پیشہ فوج جارحانہ اور اقدامی فوجی آرایش کو ترک کرکے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ آج سیاسی میدان میں غاصب حکومت کے سب سے بڑے حامی یعنی امریکہ کو خود پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنگ افغانستان میں شکست، اسلامی مملکت ایران پر سخت ترین دباؤ ڈالنے کی پالیسی میں شکست، ایشیائی طاقتوں کے سامنے شکست، عالمی اقتصاد کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش میں شکست، اپنے داخلی انتظامات میں شکست اور امریکہ کے حکومتی نظام میں موجود گہری کھائی۔
غاصب صیہونی حکومت سیاسی و عسکری دونوں میدانوں میں ایک دوسرے میں پیوست مشکلات کے جال میں پھنسی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ سابق جلاد و مجرم جو اس حکومت کی باگڈور سنبھال رہا تھا 'سیف القدس آپریشن' کے بعد کوڑے دان کی نذر ہو گيا اور آج اس کے جانشین ہر لمحہ دوسرے آپریشن کی تلوار کے منتظر ہیں۔
جنین کی کارروائیوں نے صیہونی حکومت پر دیوانگی طاری کر دی۔ حالانکہ بیس سال پہلے غاصب حکومت نے نہاریا میں چند صیہونیوں کے قتل کئے جانے پر جنین کیمپ میں 200 لوگوں کو قتل کر ڈالا تھا کہ جنین کا کام ہمیشہ کے لئے تمام ہو جائے۔
سروے رپورٹیں بتاتی ہیں کہ تقریبا 70 فیصدی فلسطینی 1948 اور 1967 میں قبضے میں لئے گئے علاقوں میں اسی طرح بیرونی کیمپوں میں فلسطینی رہنماؤں کو غاصب حکومت پر حملہ کر دینے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب غاصب حکومت سے مقابلے کے لئے فلسطینیوں کی مکمل آمادگی ہے اور اس سے مجاہد تنظیموں کے ہاتھ کھل گئے ہیں کہ وہ جب ضروری سمجھیں کارروائی شروع کر دیں۔
1948 کے مقبوضہ علاقوں کے شمالی اور جنوبی دونوں حصوں میں فلسطینی عوام کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اردن اور مشرقی بیت المقدس میں بڑے پیمانے پر جلوسوں، فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے مسجد الاقصی کے زوردار دفاع اور غزہ میں فوجی مشقوں سے ثابت ہو گیا کہ پورا فلسطین مزاحمت کا میدان گيا ہے۔ آج جہاد کو جاری رکھنے پر فلسطینی عوام کا اجماع بن گيا ہے۔
یہ واقعات اور فلسطین میں حالیہ برسوں میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا ہے وہ صیہونی دشمن سے مفاہمت کے تمام منصوبوں پر خط بطلان ہے۔ کیونکہ فلسطین کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ اس کے اصلی مالکان یعنی فلسطینیوں کی عدم شرکت یا مخالفت کی صورت میں قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے کے تمام معاہدے جیسے اوسلو معاہدہ یا ٹو اسٹیٹ کی عرب تجویز یا سنچری ڈیل یا (صیہونی حکومت سے) معمول کے تعلقات سے متعلق حالیہ حقیرانہ سمجھوتے سب کالعدم ہو چکے ہیں۔
صیہونی حکومت کے کس بل ڈھیلے پڑ چکے ہیں لیکن اس کی مجرمانہ کارروائياں جاری ہیں اور مظلوموں پر مسلحانہ حملے کر رہی ہے۔ غیر مسلح عورتوں، بچوں، پیر و جواں کو قتل کر رہی ہے، جیلوں میں ڈال رہی ہے، ایذائیں دے رہی ہے، گھروں کو مسمار کر رہی ہے، کھیتیوں اور املاک کو اجاڑ رہی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے دعویدار دروغ گو جو یوکرین کے مسئلے میں آسمان سر پے اٹھائے ہوئے ہیں، فلسطین میں اتنے جرائم پر مہر بلب ہیں، مظلوم کا دفاع نہیں کرتے بلکہ خونخوار بھیڑئے کی مدد کر رہے ہیں۔
یہ بہت بڑا سبق ہے۔ دنیائے اسلام کے مسائل اور ان میں سر فہرست مسئلہ فلسطین کے معاملے میں ان نسل پرست اور کینہ پرور طاقتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، تکیہ نہیں کرنا چاہئے۔ صرف اور صرف مزاحمتی قوت سے جو قرآنی تعلیمات اور دین اسلام کے احکام پر استوار ہے، عالم اسلام کے مسائل اور ان میں سر فہرست مسئلہ فلسطین کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مغربی ایشیا میں مزاحمتی فورس کی تشکیل حالیہ عشروں میں اس علاقے کی سب سے بابرکت تبدیلی رہی ہے۔ یہ مزاحمتی قوت ہی تھی جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو صیہونیوں کے وجود سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلق سے باہر نکال لیا، عراق کو داعش کے فتنے سے نجات دلائی، امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے والے شامی مزاحمت کاروں کی مدد کی۔ مزاحمتی فورس بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرتی ہے۔ یمن کے مزاحمت کار عوام کی اس جنگ میں مدد کر رہی ہے جو ان پر مسلط کر دی گئی ہے۔ فلسطین میں غاصب صیہونیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہے اور توفیق خداوندی سے انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی اور اپنی مجاہدانہ کوششوں سے قدس اور فلسطین کے موضوع کو عالمی رائے عامہ کے سامنے روز بروز زیادہ پرزور انداز میں پیش کر رہی ہے۔
آپ فلسطین کے عوام، آپ غرب اردن اور 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فداکار نوجوان، جنین کے کیمپ کے آپ مجاہدین، قدس اور غزہ کے آپ مزاحمت کار، دیگر ملکوں میں فلسطینی کیمپوں میں بسنے والے آپ لوگ مزاحمتی پیکر کا بہت اہم اور حساس جز ہیں اور اسے آگے لے جانے والے انجن کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ پر سلام ہو! ثابت قدمی سے ڈٹے رہئے اور یاد رکھئے کہ: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا، اور: لَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ، اور: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ .. اور: سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ.
اسلامی جمہوریہ مزاحمتی محاذ کی حامی و مددگار ہے۔ فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی حامی و پشت پناہ ہے۔ یہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، اس پر عمل بھی کیا ہے اور اس پر ہمیشہ تاکید کی ہے۔ ہم اسرائیل سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کے خیانت آمیز عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل سے نارمل تعلقات قائم کرنے کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ جو بعض عرب حکومتوں نے امریکہ سے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں جلدی کرے، اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اس علاقے سے باہر نکلنے سے پہلے وہ غاصب حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے کے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹا دے تو پہلی بات یہ کہ انھوں نے غداری کا ارتکاب کیا ہے اور دنیائے عرب کی پیشانی پر کلنک کا داغ لگا دیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ ان کی سادہ لوحی ہے۔ کیونکہ نابینا کسی اندھے شخص کی چھڑی نہیں بن سکتا ہے۔
آخر میں فلسیطنی شہیدوں کی ارواح پر درود و سلام بھیجتا ہوں، ان کے صابر خاندانوں کو سلام کرتا ہوں، فلسطینی قیدیوں کو جو اپنے مضبوط ارادوں سے مزاحمت کر رہے ہیں، سلام کرتا ہوں، مزاحمتی فلسطینی تنظیموں کو سلام کرتا ہوں جو اس بھاری ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہیں، دنیائے اسلام بالخصوص نوجوانوں کو عزت و وقار کے اس میدان میں اترنے کی دعوت دیتا ہوں۔