برطانیہ میں بریگزٹ کے حامیوں کی مالی بدعنوانی کا پردہ فاش ہونے کے بعد برطانوی ارکان پارلیمان نے یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے لئے دوہزار سولہ میں ہوئے ریفرینڈم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ ریفرینڈم کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کی سینیئرپارلیمنٹیرین سارا ویلسن اور نیکولس سوامز نے دارالعوام میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ سے متعلق ریفرینڈم میں جان بوجھ کر دھاندلی کرائی گئی اور ریفرینڈم کے نتائج پر رائے دہندگان کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔
برطانیہ کے انتخابات پر نظر رکھنے والے کمیشن نے منگل کو اعلان کیا کہ ایسے ثبوت و شواہد سامنے آئے ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بریگزٹ کمپیئن کے حامی سابق وزیرخارجہ بورس جانس اور سابق وزیرماحولیات مائیکل گوو نے ریفرینڈم کی تشہیرات کے لئے قانونی طورپر مقررکی گئی حد سے زیادہ رقومات خرچ کی تھیں۔
حزب اختلاف کے لیڈر جیرمی کوربن اور لیبر پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی بریگزٹ کمپیئن کے اقدامات کو جمہوریت کی توہین قراردیا اور مطالبہ کیا کہ دوہزار سولہ کے ریفرینڈم کے نتائج کو کالعدم قراردے کر دوبارہ ریفرنڈم کرایا جائے لیکن برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئے نے کہا ہے کہ وہ اس طرح کے مطالبے کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے مخالفین کی طرف سے پڑنے والے دباؤ سے ممکن ہے کہ یاتو تھریسامئے استعفا دے دیں یا پھر دوبارہ ریفرنڈم کرائے جائیں۔ اس درمیان برطانیہ کے سابق وزیرخارجہ بورس جانسن نے تھریسا مئے کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں نااہل وزیراعظم قراردے دیا ہے اور کہا ہے کہ برطانیہ کی صورتحال انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔
بورس جانسن نے جنھوں نے دس روز قبل وزارت خارجہ کے عہدے سے استعفا دے دیا تھا بدھ کو دارالعوام میں بریگزٹ کے بارے میں برطانوی وزیراعظم کے نئے موقف پر کھل کر تنقید کی۔ جانسن نے اپنی تقریر میں یورپی یونین سے نکلنے کے عوض چالیس ارب پونڈ تاوان کی ادائیگی، یورپی یونین کی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے، یورپی یونین کے تجارتی قوانین کے نظام میں برطانیہ کے باقی رہنے اور سب سے بڑھ کر شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے مابین سرحد کو سیاسی قراردینے کے موضوع پر شدید تنقید کی۔
واضح رہے کہ دوہزار سولہ میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے لئے ہونے والے ریفرینڈم میں ترپن فیصد رائے دہندگان نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لندن کے پاس مارچ دوہزار انیس تک کی مہلت ہے کہ وہ یورپی یونین سے نکلنے کے طریقہ کار کے بارے میں اس یونین کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچ جائے۔