ابھی کچھ دپہلے بحرین، مصر، سعودی و امارات نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے ،جس پر دنیا کے کئی ممالک امریکہ، روس، پاکستان، انڈیا اور ترکی نے اس مسئلے کے سفارتی حل پر زور دیا ہے۔
سی آئی اے کے سابق اہلکار مائیکل ہایڈن نے گارڈین سے انٹرویو میں کہا ہے کہ: اخوان اور حماس کے سربراہان کو قطر سے نکالنا غلط پالیسی ہے، سعودیہ دہشتگروں سے مقابلے کے بہانے سے قطر کو دبا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: اسلامی گروہوں کو دوحہ سے نکالنے کے باوجود وہ اپنی سرگرمیاں انجام دینگے۔ قطر نے اپنی پالیسی سے ان کو کنٹرول کیا ہوا ہے، اور یہ قطر کا ایک صحیح فیصلہ تھا جس سے طالبان، اخوان اور حماس سے مذاکرات کے مواقع فراہم ہوئے ہیں ۔
سی آئی اے کے اہلکار کو میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ ایک ناپختہ سعودی جوان کو اجازت نہ دے کہ وہ علاقے کے سیکورٹی مسائل کو خراب کرے، اور امریکہ کے لیے قطر اور سعودیہ دونوں برابر ہونے چاہئیں ۔
خیال رہے کہ سی آئی اے کے سابق اہلکار بروس ریڈل نے بروکینگز ویب سائٹ سے گفتگو میں کہا تھا کہ: قطر سے سعودیہ کا رابطہ ختم کرنا جلد بازی ہے، اس سے پہلے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودیہ اور امریکہ کے درمیان 110 ملین ڈالر کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاوس کے مسائل کے ماہر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کے اندر سعودیہ کے قطر کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے فیصلہ کے بعد اختلافات پیدا ہو گئے ہیں ۔