واشنگٹن- ٹرمپ انتظامیہ نے شامی صدر بشار لاسد کی حکومت سے لڑنے والی بعض باغی تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کے خفیہ پروگرام کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات دو امریکی افسران نے بتائی ہے۔اسد کا اتحادی روس بھی یہی چاہتاہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ امریکہ کے اس فیصلہ کا مقصدروس کے ساتھ تعلقات سدھارنا ہے جو چھ سالہ خانہ جنگی کے دوران ایران حامی گروپوں کے ساتھ کافی حد تک اسد کی حکومت کو بچانے میں کامیاب رہا ہے۔ سی آئی اے کا یہ پروگرام 2013 میں شروع ہوا تھا جس کے ذریعہ اس وقت کے صدر بارک اوباما اسد کا تختہ پلٹنا چاہتے تھے مگر اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔ دونوں افسران پروگرام سے واقف تھے اور انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر معلومات فراہم کی ہے۔
سب سے پہلے واشنگٹن پوسٹ نے پروگرام کی معطلی کی خبردی تھی۔ سی آئی اے نے اس پر رائے زنی کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ فیصلہ قومی سلامتی کے شہر ایچ آر میک ماسٹر اور سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائک پومپیو نے ٹرمپ کی سات جولائی کو روسی صدر بلادیمیر پوتن کے سات ملاقات سے قبل نچلی سطح کے افسران کے مشورے سے کہا تھا۔ ایک افسر نے بتایا ہے کہ اسد کی پکڑکے مدنظر امریکہ نے کوئی بڑی رعایت نہیں دی ہے ۔ اس کے بجائے یہ پوتن کے لئے اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ٹرمپ پر کانگریس اور 2016 کی صدارتی الیکشن میں روسی مداخلت کی جانچ کا بہت شدید دباؤ ہے۔ روس اس بات سے انکار کرتا ہے کہ امریکی الیکشن میں ماسکو حکومت نے مداخلت کی تھی ۔ ٹرمپ بھی اس کی تردید کرتے ہیں کہ انکی انتخابی مہم اور روسیوں کے درمیان سانتھ گانٹھ تھی۔
سی آئی اے پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں افسران نے بتایا ہے کہ امریکی اسلحہ اور تربیت حاصل کئے ہوئے کچھ باغی داعش (دولت اسلامیہ) اور دیگر باغی گروپوں میں شامل ہوگئے تھے۔ اس لئے سابق حکومت کے بعض ممبران نے مذکورہ پروگرام کو منسوخ کرنے پر زور دیا۔ جنوری میں عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ نے تجویز کیا تھا کہ وہ آزاد شامی فوج میں شامل گروپوں کی حمایت بند کرسکتے ہیں اس کے بجائے دوہ دولت اسلامیہ سے لڑنے کو ترجیح دیں گے ۔ تاہم امریکی فوج کی دیگر شامی باغی گروپوں کو تربیت اسلحہ اور حمایت دینے کی کوششیں اور فضائی حملوں سے ان کی مدد بدستور جاری رہے گی۔ مگر جب شامی فوج نےکیمیائی اسلحہ سے حملہ کیا تو فضائی حملوں کے سوا ٹرمپ انتظامیہ نے اوبامہ انتظامیہ کی طے کردہ حد سے آگے فوجی مدد میں اضافہ نہیں کیا ہے۔