تہران میں تاریخی نمازِ جمعہ منعقد،رہبر معظم کا دلیرانہ خطاب ،اسرائیل سکتے میں
292
M.U.H
04/10/2024
تہران:آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہ تعلل سے کام لیں گے نہ جلدی بازی کریں گے جو منطقی، معقول اور صحیح ہے اور سیاسی اور فوجی فیصلہ کرنے والوں کے نظریئے کے مطابق ہوتا ہے بروقت انجام دیا جاتا ہے اور اگر آئندہ ضروری ہوا تو پھر انجام دیا جائے گآ۔
تہران کی امام خمینی عیدگاہ میں مجاہد کبیر شہید فی سبیل اللہ سید حسن نصراللہ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ایران کے جنرل نیل فروشان اور دیگر شہدا کی مجلس ترحیم کے بعد آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں کا آغازکیا۔
آپ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا ہے کہ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہ لیت و لعل سے کام لیں گے اور نہ ہی جلدبازی کریں گے۔
آپ کے خطبوں کے اہم ترین نکات یہ ہیں :
سید حسن نصراللہ کا صرف جسم ہمارے درمیان سے گیا ہے لیکن ان کی حقیقی شخصیت، ان کی روح ، ان کی راہ، اور ان کی آواز اسی طرح ہمارے درمیان موجود ہے اور باقی رہے گی۔ سید حسن نصراللہ نے ستمگروں، لٹیروں اور شیطانی طاقتوں کے مقابلے یمں پرچم استقامت بلند کیا اور لبنان، ایران اور عرب ملکوں سے ماورا ہوگئے تھے اور اب ان کی شہادت نے ان کی تاثیربڑھا دی ہے۔
ذلیل اور شکست خوردہ دشمن چونکہ حزب اللہ، یا حماس یا جہاد اسلامی اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والی دیگر تنظیموں کے محکم تنظیمی ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس لئے دہشت گردی کے ساتھ لوگوں کے قتل، غیر فوجیوں کے قتل عام اور غیر مسلح لوگوں کو داغدار کرنے کو اپنی کامیابی بتاتا ہے۔ نتیجہ کیا ہے؟ اس طرزعمل کا نتیجہ لوگوں کے غم غصے کی شدت اور مجاہدین، لیڈران ، اور فدکاروں کے جذبہ فداکاری میں اضافہ، خون آشام بھیڑیوں کے محاصرے کا تنگ ہونا اور بالآخر ان کے شرمناک وجود کا خاتمہ ہے۔
لبنان اور فلسطین کے پائیدار عوام ! بہادر مجاہدین اور صابر نیز قدر شناس عوام! یہ شہادتیيں زمین پر بہنے والے یہ خون اپ کی تحریک کو کمزور نہیں کرسکتے (بلکہ) زیادہ محکم کریں گے۔ ایران اسلامی میں سن 1981 کے موسم گرما کے تقریبا تین ماہ ہماری دسیوں ممتاز شخصیات دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہوگئيں ۔ ان میں سے ایک شہید محمد بہشتی تھے۔ ایک صدر محمد علی رجائی تھے، ایک شہید باہنر تھے، آیت اللہ مدنی ، قدوسی، ہاشمی نژاد جیسے علما تھے ۔ ان میں سے ہرایک مقامی اور ملی سطح پر انقلاب کے ستون شمار ہوتے تھے۔ ان کا فقدان معمولی چیز نہیں تھی ۔ لیکن انقلاب نہیں رکا ، پیچھے نہیں گیا، بلکہ اس کی رفتار بڑھ گئی۔
- اس علاقے میں استقامت ان شہادتوں سے پیچھے کی طرف نہیں پلٹے گی بلکہ کامیاب ہوگی۔ غزہ میں استقامت نے آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے اور اسلام کو سربلند کیا ہے۔ غزہ میں (صیہونیوں کی ) تمام ترشرپسندیوں اور پستیوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہے ۔ کوئی حریت پسند انسان ایسا نہیں ہے جو اس استقامت کو خراج تحسین نہ پیش کرے اور سفاک نیز خون آشام دشمن پر لعنت نہ بھیجے۔
- غاصب صیہونی حکومت کے پیکر پر جوفرد یا گروہ بھی کوئی وار لگاتا ہے تو یہ پورے علاقے بلکہ پوری انسانیت کی خدمت ہے ۔ یقینا صیہونیوں اور امریکیوں کا خواب، خیال باطل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ صیہونی حکومت وہی شجر خبیثہ ہے جو زمین سے اکھاڑ دیا گیا ہے اور اللہ کے سچے فرمان کے مطابق اس کو قرار نہیں ہے۔
طوفان الاقصی اور غزہ نیز لبنان میں استقامت کے ایک برس نے غاصب صیہونی حکومت کو اس جگہ پہنچا دیا ہے کہ اب اس کو زیادہ اپنی بقا کی فکر ہے ۔ یعنی وہی پریشانی اور فکر جو اس کو اپنی منحوس پیدائش کے ابتدائی برسوں میں تھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین اور لبنان کے مجاہدین کی مجاہدت نے اس غاصب حکومت کو 70 برس پیچھے دھکیل دیا ہے ۔
اس علاقے میں جنگ ، بدامنی اورپسماندگی کا بنیادی عامل غاصب صیہونی حکومت کا وجود اور ان حکومتوں کی موجودگی ہے جو دعوی کرتی ہیں کہ علاقے میں امن و صلح کی کوشش میں ہیں۔ علاقے کا اصل مسئلہ اغیار کی مداخلت ہے۔ اس علاقے کی حکومتیں امن و سلامتی قائم کرنے پر قادر ہیں۔ اس بڑے اور نجات بخش ہدف کے لئے اقوام اور حکومتوں کی سعی وکوشش اور مجاہدت ضروری ہے۔
سید حسن نصراللہ کی زندگی کا اہم ترین زبانی اور عملی پیغام آپ لبنان کے وفادر عوام کے لئے یہ تھا کہ امام موسی صدر، سید عباس موسوی اور دیگر اہم اور ممتاز شخصیات کے چلے جانے سے مایوس اور پریشان نہ ہوں۔ مجاہدت کی راہ میں شک نہ کریں اپنی یک جہتی کئی گنا کردیں، جارح اور حملہ آور دشمن کے مقابلے میں ایمان اور خدا پر توکل کے ساتھ استقامت سے کام لیں اور اس کو شکست دے دیں۔
آج اپنی قوم استقامتی محاذ اور پوری امت اسلامیہ سے شہید سید کی خواہش یہی ہے۔
حزب اللہ ، اور شہید سید نے غزہ کے دفاع اور مسجد الاقصی کے لئے جہاد کی راہ میں اور غاصب نیز ظالم صیہونی حکومت پر وار لگاکر پورے علاقے اور پوری اسلامی دنیا کی راہ میں قدم بڑھایا ہے۔
غاصب صیہونی حکومت کی سلامتی کے تحفظ پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا اصرار، اس علاقے کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے اس کو اپنے وسیلے میں تبدیل کرنے کی مہلک پالیسی کی ڈھال اور بڑی عالمی جنگوں کے لئے اس سے کام لینے کے لئے ہے۔ ان کی پالیسی اس حکومت کو علاقے سے مغربی دنیا کے لئے توانائی کی سپلائی اور مغرب سے اشیا اور ٹیکنالوجی کی درآمد کے گیٹ میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کا مطلب غاصب صیہونی حکومت کی بقا کی ضمانت فراہم کرنا اور پورے علاقے کو اس سے وابستہ کرنا ہے اور مجاہدین کے ساتھ اس غاصب حکومت کا سفاکانہ رویہ اسی صورتحال کی طمع میں ہے۔
صیہونی حکومت نے امریکی حمایتوں سے خود کو مشکل سے باقی رکھاہے۔ لیکن یہ حالت بھی اذن خدا سے دیر تک باقی نہیں رہے گی۔ اس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ ایک سال ہوگیا ہے کہ دشمن کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے غزہ اور لبنان میں امریکا اور چند یورپی حکومتوں کی ہمہ گیر مدد سے چند ہزار مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقابلے میں، جو محصور ہیں اور ان تک ہر قسم کی مدد پہنچنے کی ممانعت کی جارہی ہے، شکست کھاچکا ہے اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ لوگوں کے گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور غیر مسلح لوگوں کے اجتماعات پر بمباری ہے۔