نیو یارک: ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب خطے میں تمام کوششیں داعش کے خاتمے پر مرکوز ہیں عراقی کردستان میں منعقدہ ریفرنڈم سے علاقائی استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ یہ بات 'محمد جواد ظریف' نے گزشتہ روز نیو یارک میں امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے پر از سر نو مذاکرات سے نئی دلدل جیسی صورتحال پیدا ہوگی۔انہوں نے ایران کی جانب سے میزائل تجربے کرنے کے امریکی صد ٹرمپ کے دعوے پر ردعمل میں کہا کہ بعض لوگ حقائق سے کھلواڑ کرتے ہیں تا کہ اپنے پسنیدہ حقائق کو سامنے لائیں۔
ظریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تجویز دی ہے کہ وہ اپنا بیان جاری کرنے سے پہلے حقائق کا صحیح انداز میں جائز لیں۔سفری پابندیوں کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی وجہ کے بغیر ان افراد اور قوموں سے دشمنی کو فروغ دے رہا ہے جو کسی پر ظلم تک نہیں کیا۔
انہوں نے ایران جوہری معاہدے پر از سر نو مذاکرات کو غیرحقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر صرف ایران نہیں بلکہ یورپی ممالک بھی دوبارہ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں۔ظریف نے مزید کہا کہ امریکہ کے ایسے اقدامات سے دنیا کو اچھا پیغام نہیں جاتا اور اس یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امریکہ مذاکرات کے لئے قابل بھروسہ ملک نہیں بن سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے پر از سر نو مذاکرات کا مطلب ایک ایسی دلدل پیدا کرنا ہے جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد ہمارے پاس متعدد راستے موجود ہیں جن کے تحت پرامن جوہری پروگرام کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے اس شعبے میں بغیر کسی پابندی کے پیداوار کو بھی جاری رکھ سکیں گے۔