امارات جو گذشتہ کچھ عرصے سے بعض دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح بڑی طاقت بننے کی دوڑ میں شریک ہوا ہے اور اسرائیل کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہے، نے گزشتہ روز منگل کے دن ڈیکوڈنگ حزب اللہ کے عنوان سے ابوظہبی کے پالیسی سینٹر میں ایک سمپوزیم منعقد کیا جس میں عرب اور مغربی مقررین نے خطاب کیا۔
جاثیہ نیوز نے لبنان کے اخبار "البیان" سء نقل کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ امارات پالیسی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر ابتسام الکتبی نے کہا ہے کہ "حزب اللہ علاقے میں ایران کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا بنیادی ذریعہ ہے اور یہ جماعت ایک لبنانی کھلاڑی نہیں رہی بلکہ علاقائی کھلاڑی بن چکی ہے"؛ اور "حزب اللہ کے دوبارہ ادراک اور اس کی رمز کشائی (Decoding)" آج کی ضرورت ہے۔
الکتبی کا کہنا تھا کہ اس سمپوزیم کا مقصد حزب اللہ کے نظریات (Idealogy) اور سیاسی و عسکری ڈھانچے کا جائزہ لینا اور اس کے اہداف و مقاصد اور روشوں کو مد نظر رکھ کر اس کی پیشرفت کا مطالعہ کرنا ہے۔
ایرانی ذرائع کے مطابق اس سمیوزیم کی قبل از وقت ناکامی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بنیاد بےبنیاد اور جھوٹی رپورٹوں پر استوار تھی اور کہا گیا ہے کہ امارات اور سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ اصل خطرہ حزب اللہ کے ہتھیار نہیں ہیں بلکہ اس کا سیاسی منصوبہ ہے جس کے تحت یہ جماعت کوشش کررہی ہے کہ لبنان کا ڈھانچہ تہس نہس کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرے، جس کے لئے کسی قسم کی سند یا ثبوت پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور شاید سوچا گیا کہ سیاسی جائزے بھی استبدادی ہدایت ناموں کی طرح آنکھیں بند کرکے قبول کئے جاتے ہیں!!
دوسری بات یہ تھی کہ سعودی عرب اور امارات جیسی ریاستیں کیونکہ اس عوامی ماحول کی رمزکشائی کرسکتے ہیں جن میں حزب اللہ جیسی جماعت معرض وجود میں آئی ہے! جبکہ جن ریاستوں میں عوام کی بات سننا ہی حکومت کے زوال کے مترادف ہوتی ہے وہاں اس طرح کے ماحول کا ادراک شاید چنداں آسان نہ ہو۔
لبنان کا ایک سرگرم سیاسی کارکن لقمان سلیم ـ جو ویکی لیکس کے انکشافات کے مطابق بیروت میں امریکی سفارتخانے کے لئے مخبری کیا کرتا تھا ـ بھی اس سمپوزیم کے مقررین میں شامل تھا جس نے دعوی کیا کہ حزب اللہ آج مکمل طور پر لبنان سے الگ ہے؛ لبنان عملی طور پر مشترکہ اثرات کا میدان ہے جس میں ایران کا حصہ دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔
لبنان کے عیسائی دانشور اور بیروت کی جامعہ ہایکازیان میں سیاسیات کے استاد جوزف الاغا نے سوال اٹھایا کہ "حزب اللہ کس طرح سوچتی ہے؟ اور کیا یہ جماعت ایک علاقائی جماعت ہے؟ اور دعوی کیا کہ "حزب اللہ محض ایرانی یا لبنانی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ جماعت علاقے، لبنان اور کبھی عالمی حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے"۔
الاغا کا کہنا تھا: "میں 25 سال تک مطالعہ کرتا رہا ہوں، بیروت میں جیتا رہا ہوں اور خانہ جنگی کو دیکھ چکا ہوں اور حزب اللہ کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہوں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔۔۔ حزب اللہ نرم، سخت اور ہوشیار (Soft and hard and smart power) کو مطمع نظر بنائے ہوئے ہے۔ حزب اللہ نہ صرف لبنان میں بلکہ پورے علاقے میں ایک بنیادی اور اصلی قوت ہے۔ حزب اللہ ایک سیاسی شاخ کی حامل ہوسکی ہے۔ یہ جماعت 1982 سے پارلیمان میں اور 2005 سے کابینہ میں داخل ہوئی، یہ حزب اللہ کی ہوشیار قوت ہے۔۔۔ حزب اللہ رفتہ رفتہ باریک بینی اور لطافت کے ساتھ قدم بقدم لبنان کی سماجی حیات کے مختلف حصوں میں داخل ہوئی"۔
جوز الاغا نے کہا: جس چیز کو مقاوم معاشرہ [یا مقاومت = محاذ مزاحمت] کہا جاتا ہے اس کی توجہ محض عسکری امور پر مرکوز نہیں بلکہ یہ ایک نظام ہے جو مختلف امور پر مشتمل ہے۔۔۔ حزب اللہ جو 1978 میں تشکیل پائی صرف ایک دینی جماعت نہیں ہے۔ اس جماعت نے [حوزہ علمیہ الامام المنتظر کی سالگرہ کی مناسبت سے] 24 فروری کو ایک جشن منعقد کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جماعت کس قدر وسیع سطح پر عمل کرتی ہے"۔
امریکہ کی اٹلانٹک کونسل کے تجزیہ نگار اور لبنان کے امور کے ماہر نیکولس بلینفورڈ (Nicholas Blanford) نے بھی اس نشست میں اپنے خطاب کے دوران حزب اللہ کی تاسیس کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے کہا: "سعودی عرب آج لبنان کو ایران کے ساتھ رقابت و مسابقت کے دریچے کے طور پر دیکھتا ہے اور گذشتہ ایک سال کے دوران لبنان کے استحکام کا سبب یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان میں بالادست قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔۔۔ حزب اللہ طاقت کو محض طاقت کے لئے نہیں چاہتی بلکہ طاقت حاصل کرکے اس شیئے کے تحفظ کے درپے ہے جس کو وہ محاذ مزاحمت کا ہدف و مقصد گردانتی ہے۔ حزب اللہ اس وقت صرف ایک لبنانی قوت نہیں ہے بلکہ ایک ایسی قوت میں بدل گئی ہے جو شام، عراق اور یمن میں موجود ہے اور اس کا کام خطے میں ایران کی طاقت کو نافذ کرنا ہے۔۔۔ سعودی عرب حزب اللہ کو لبنان میں دیوار سے لگانے کی بہترین کوشش کے باوجود ناکام رہا ہے اور ایران لبنان کی سیاسی کشمکش میں جیت چکا ہے [یعنی سعودی عرب مختلف منصوبوں کے باوجود اس ملک کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کرسکا ہے] ۔۔۔ ایران کی زیادہ تر توجہ لبنان میں حزب اللہ کی سلامتی پر مرکوز ہے۔۔۔ اس طویل جنگ میں ہارا ہؤا ملک سعودی عرب ہے اور حزب اللہ کو دیوار سے لگانے کے سلسلے میں سعودی پالیسیاں ناکام رہی ہیں"۔
بلینفورڈ کا کہنا تھا کہ "سعودی حکام نے اپنے ملک میں آئے ہوئے لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری کو استعفا دینے پر مجبور کیا [اور اسے امید تھی کہ لبنان عدم استحکام کا شکار ہوگا] لیکن ایسا نہ ہؤا اور سعودیوں کے اس اقدام کا الٹا اثر ہؤا اور لبنان کی سڑکوں پر سعودی عرب کے خلاف مظاہرے ہوئے اور لبنان کی رائے عامہ کا خیال ہے کہ اگلے انتخابات میں حزب اللہ اور اس کی حلیف جماعتوں کا حصہ پہلے سے زیادہ ہوگا؛ خدشہ ہے کہ انتخابات کے ان نتائج کے زیر اثر لبنان پر ایران کا تسلط بڑھ جائے گا"۔
بلینفورڈ کا خیال تھا کہ "حزب اللہ لبنان میں مزید طاقتور ہوگی تو ایران کا تسلط بڑھ جائے گا اور اگر لبنان پر ایران کا تسلط بڑھ جائے تو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ لبنان کی جنگ کا امکان بھی بڑھ جائے"، [اور بلینفورڈ کی یہ بات شاید ایک دھمکی تھی لبنانیوں کے لئے کہ وہ حزب اللہ کو طاقتور نہ ہونے دیں!]
اس نشست میں بعض دوسری باتیں بھی سامنے آئیں جو زیادہ تر حاضرین کے سوالات کے جوابات کی صورت میں بیان ہوئیں:
- "شام کی جنگ میں حزب اللہ کی موجودگی نے اس کو ایک نیم عسکری طاقت میں تبدیل کردیا ہے جس نے اپنی چھاپہ مار جنگی صلاحیت کو بھی محفوظ رکھا ہؤا ہے؛ حزب اللہ اس جنگ میں جدید جنگی صلاحیت اور فوجی انتظام و انصرام کی دانش سے لیس ہوئی"۔
- "حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں استعمال شدہ ہتھیاروں اور فوجی حکمت عملی کی اصلاح کی اور انہیں جدید بنایا۔ حزب اللہ نے ابتداء میں کچھ زیادہ جانوں کی قربانی دے کر جوابی دہشت (Balance of Horror OR Balance of Terror) بحال کردیا؛ یہاں تک کہ شمالی اسرائیل [یعنی مقبوضہ فلسطین] کا علاقہ اس کی گولہ باریوں کی زد میں آگیا"۔
- "حزب اللہ نے جنگی اقدامات کی مختلف اشکال کا تجربہ کیا، جیسے چھاپہ مار جنگ، کلاسیکی اور روایتی جنگ، اغوا کی کاروائیاں [اسرائیلی دشمن کے سپاہیوں کا اغوا]، [صرف اسرائیل کے خلاف] فدائی حملے وغیرہ۔۔۔"۔
- حزب اللہ کی مالی سرگرمیاں تین قسم کی ہیں: وہ افراد جو حزب اللہ کے رکن نہیں ہیں اور بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں، اپنے گھرانوں کے لئے رقم بھیجتے ہیں اور وہ ان رقوم کا کچھ حصہ حزب اللہ کو پہنچا دیتے ہیں۔۔۔ دوسری قسم کے لوگ حزب اللہ سے رابطے میں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو قانون یا غیر قانونی تجارت سے منسلک ہیں اور ان کی تجارتی سرگرمیاں حزب اللہ کے مفاد میں ہیں۔ اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو حزب اللہ کے رکن نہیں ہیں لیکن ان کی کچھ کمزوریاں ہیں لیکن مالی سرگرمیوں میں ۔۔۔ مصروف ہیں اور حزب اللہ کی مدد کرتے ہیں"۔
ایک دعوی:
- "حزب اللہ کی بھی کچھ کمزوریاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے یہ مکمل طور پر ایران کے سہارے پر اعتماد کرتی ہے اور جب ایران میں کوئی واقعہ رونما ہوگا اس سے حزب اللہ کے مستقبل پر اثر پڑے گا ۔۔۔"۔
- "حزب اللہ کی طاقت دو شعبوں میں ہے: عسکری اور سماجی۔ اگر حزب اللہ کی عسکری شاخ الگ ہوجائے اور لبنان کی حکومت شیعہ اکثریتی علاقوں میں اپنی سماجی ذمہ داریوں سے عہد بر آ ہوجائے تو اس جماعت کی قوت اس کی کمزوری میں بد جائے گی"۔
ایک دعوی:
- "شام کی جنگ نے حزب اللہ کو بدل دیا؛ وہ شام پہنچی تو قاسم سلیمانی کی کمانڈ میں آگئی؛ اور اس وقت قاسم سلیمانی ہی حزب اللہ کے عملی راہنما ہیں"۔
- "حزب اللہ نے علاقائی کھلاڑی میں بدلنے کے عمل کے دوران بہت اعلی فوجی قوت حاصل کرلی لیکن بہت سی اسپیشل فورسز کو ہاتھ سے دے بیٹھی ہے"۔
- "علاقے میں تناؤ کے مراکز کے علاوہ، حزب اللہ لبنان میں جنگ کی طرف مائل نہیں ہے"۔
- "حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی تعامل کے وقت اس کے صرف اندرونی یا صرف بیرونی کردار ہی کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس کے دونوں پہلؤوں کو نظر میں رکھنا چاہئے، اور ساتھ ہی علاقے میں ایران کے موقف کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی"۔
- "حزب اللہ 2012 سے لے کر اندرونی اور علاقائی سطح پر مختلف قسم کی حصولیابیوں کے حوالے سے کامیاب رہی ہے اور اس کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کمزور ہوچکے ہیں؛ اور ممکن ہے کہ یہ جماعت اپنی حصولیابیوں کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوجائے"۔
- حالیہ برسوں میں سنی تحریکیں [کہلوانے والی تنظیمیں] اور متعدد دہشت گرد تنظیمیں معرض وجود میں آئی ہیں [یعنی معرض وجود میں لائی گئی ہیں] جنہوں نے حزب اللہ کو نشانہ بنایا ہے۔ اور امکان قوی ہے کہ حزب اللہ کے لئے ان تنظیموں کا خطرہ قائم و دائم رہے گا"، [کیونکہ امریکہ اور یورپ ان تنظیموں کو ختم نہیں ہونے دیتے]۔
- یہ امکان نہیں پایا جاتا کہ مئی 2018 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد لبنان کی سیاسی صورت حال بدل جائے؛ شاید ان انتخابات کے نتیجے میں قومی اتحاد کی حکومت قائم ہوجائے، تاہم حزب اللہ لبنان کی فیصلہ سازی میں اہم اور مؤثر کھلاڑی کی حیثیت سے کردا ادا کرتی رہے گی"۔
- "اندازہ ہے کہ اسرائیل کافی حد تک فوجی طاقت رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ یا ایرانی محاذ کے ساتھ اگلی کسی بھی جنگ میں فضا پر مسلط رہ سکے گا"۔ [یعنی فضائیہ کو کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر استعمال میں لا سکے گا؛ لیکن منصف تجزیہ نگاروں کی رائے اس رائے سے مختلف ہے]۔
- "اسرائیل اور لبنان کے درمیان تیل اور گیس فیلڈز کے سلسلے میں ممکنہ جنگ اور لبنان کی سرحد پر اسرائیلیوں کی طرف سے حائل دیوار کی تعمیر حزب اللہ کی فوجی قوت کے تحفظ کا سبب ہے کیونکہ لبنان کی حکومت نے ضمنی طور پر اس جنگ میں حزب اللہ کے کردار کو پہلے سے تسلیم کرلیا ہے"۔
۔۔۔ دور کی سوجھی
- "اگر شام اور اسرائیل کے درمیان صلح حزب اللہ کے ہتھیاروں کے خاتمے پر منتج ہوگی لیکن یہ مسئلہ مستقبل قریب میں ممکن ہوتا نظر نہیں آتا اور مستقبل قریب میں شام اور اسرائیل کے درمیان صلح غیر ممکن ہے"۔
خلیجی ریاستوں کے لئے انجانی شیئے "انتخابات" میں حزب اللہ کی شمولیت بھی جرم، اور ان ریاستوں کے زیر سرپرستی انسانیت کا قتل کرنے والی تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ایک جرم!؟
- "حزب اللہ لبنان کے سیاسی عمل میں شامل ہوکر سیاسی مشروعیت (Legitimacy) حاصل کرتی ہے اور بیرونی جنگوں میں بھی حاضر ہے اور کوشش کررہی ہے کہ "تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے بہانے بین الاقوامی مشروعیت بھی حاصل کرے"۔
مذکورہ سطور میں عرب حکمرانوں، اسرائیل اور مغرب کی بے بسی تو بڑی نمایاں تھی لیکن حزب اللہ کی طرف سے دہشت گردانہ اقدامات کا کوئی شائبہ حتی اس کے دشمنوں کے کلام میں بھی نظر نہیں آیا اور ہاں یہ بھی بڑی عاجزی سے اعتراف ہوا کہ وہ تکفیری دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے لیکن اس کے باوجود علم و دانش کے دعویداروں نے علم و دانش اور عدل و انصاف کا خون کرتے ہوئے اماراتی سمپوزیم میں بغیر کسی سند و ثبوت کے دعوی کیا کہ:
- "حزب اللہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کا دنیا نے سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا ہے۔ جو کچھ آج اہم ہے یہ ہے کہ حزب اللہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک طویل المدت عربی [-یہودی - امریکی] حکمت عملی وضع کی جائے کیونکہ لبنان کو ایک عربی ماحول کی ضرورت ہے نہ کہ ایک ایسے ماحول کی جس کا سرچشمہ ایک رد عمل ہے"۔
خیال رہے کہ اماراتی سمپوزیم حزب اللہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تشکیل پائی تھی ورنہ تو عربی ماحول نے اسلام اور عربوں کو دیا ہی کیا ہے جسے اب ایسے ملک میں بھی رائج کیا جائے جو چھوٹا ہونے کے باوجود عربی اور اسلامی کاز کے تحفظ کے لئے ڈٹا ہوا ہے اور اس کا نام سن کر اسلام دشمنوں کے خواب آشفتگی سے دوچار ہوتے ہیں۔
ذیل میں آنے والی آزاد شاعری کا فارسی سے اردو میں ترجمہ شاید اس سمپوزیم کے شرکاء کے دلوں سے برآمدہ آرزو کی ترجمانی کررہا ہے:
عرب حکمرانوں کا پیغام سید حسن کے نام
ایک فرضی پیغام
تم باعث شرم ہو عرب کے لئے! سید حسن
تمہارے نام کو مٹانا چاہئے
شریف عربوں کی فہرست سے
تمہارا تو حتی لبنان میں بھی کوئی ساحلی بنگلہ نہیں ہے
جس کے اندر
تکیہ لگا کر آرام کرنے
اور موسم گرما کی غنودگی کو
حقے کے کش لگاکر خوشگوار بنانے کی بجائے
بندوق اٹھاتے ہو اور اپنے ٹی وی چینل کے ذریعے
اپنے نعروں سے
ہمارا قیلولہ توڑ کر رکھ دیتے ہو
تم نامی گرامی عربوں سے کوئی شباہت نہیں رکھتے ہو، سید حسن!
نہ تمہارا پیٹ ان جتنا بڑا ہے
جو عربی کرتے کے پیچھے سے
عربی وقار کو نمایاں کرے
نہ تو تمہارا کوئی رومال ہے نہ ہی عقال
اور پھر، تم کالا عمامہ سر پر رکھتے ہو
جو ہمیں خمینی کی یاد دلاتا ہے وہی
جس نے طویل عرصے تک ہماری نیند توڑ دی تھی
تم عربوں کے لئے باعث شرم ہو سید حسن!
نہ تو تمہاری کوئی حرمسرا ہے جس میں فراغت کے اوقات گذارو
اور ہمیں کچھ فرصت مزید ملے
اپنی حرمسراؤوں میں لطف اندوز ہونے کے لئے
تم تو عربوں کے رقصِ ممالیک اور گرجی اور یوکرینی ناچ گانوں کو بھی نہیں دیکھتے ہو
اور ہماری طرح ابھی سے جنت میں حوروں کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کی تیاری بھی نہیں کرتے ہو
تم اپنے خفیہ گھر میں "جو اگر ہمیں معلوم ہوتا تو کیا خوب ہوتا"
بیٹھتے ہو اور قرآن اور نہج البلاغہ پڑھتے ہو
تم کافر ہوچکے ہو اے سید حسن!
اور ہم عربوں کے شیوخ، صدور اور ملوک پابند ہیں
اپنے یہودی حلیف کے ساتھ دوستانہ تعاون کے
پابند ہیں کہ تمہیں یہودی اہل کتاب کے سپرد کریں۔۔۔ عظیم عربوں کی روایت کا پاس رکھتے ہوئے!!!
سید حسن! تمہیں قسم ہو عربوں کی عروبہ(!) کی
بتا دو کہیں تمہارے میزائل ریاض اور ابوظہبی تک تو نہیں پہنچ رہے ہیں؟