گزشتہ 3 برسوں سے جنگی تباہ کاریوں کے شکار ملک یمن کے اس سال قحط کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن پر سعودی جارحیت کے نتیجے میں جہاں بچوں اور عورتوں سمیت لاکھوں افراد شہید، زخمی اور متاثر ہوئے وہیں سعودی محاصرے سے اس ملک میں مختلف قسم کی وبائی امراض پھوٹ پڑی ہیں۔ کئی امدادی اداروں کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر جنگ ختم نہ ہوئی اور امدادی اشیائے خوراک کی درآمد آئندہ بھی متاثر ہوتی رہی، تو یمن اس سال قحط کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ یمن میں اب تک خناق کی بیماری کے قریب 680 کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، ان میں سے 48 واقعات میں یہ بیماری مریضوں کی جان بھی لے چکی ہے اور یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسف نے بھی اعلان کیا ہے کہ مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن پر شروع ہونے والی سعودی جارحیت میں تقریبا پانچ ہزار بچے شہید و زخمی ہو چکے ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ میں منگل کے روز اعلان کیا گیا ہے کہ یمن میں اٹھارہ لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور چار ہزار بچے ایسے ہیں جن کو فوری طور پر علاج و معالجے کی ضرورت ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق نصف سے زائد یمنی بچوں کو طبی امداد اور پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے اور وہ غربت و افلاس، بیماری و دربدری اور غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ ستّر فیصد سے زائد یمنی بچے انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد یمنی بچوں کو فوری طور پر انسان دوستانہ امداد کی ضرورت ہے۔
یمنی اسکولوں کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر دو ہزار سترہ تک یمن میں دو سو چھپن اسکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ سو اسکولوں میں جنگی پناہ گزین رہائش پذیر تھے۔
یمن پر سعودی جارحیت میں اس ملک کی بنیادی تنصیبات بھی تباہ ہوگئی ہیں اور یمن کے محاصرے اور غذائی اشیا نیز دواؤں کی قلت اور اسی طرح وبائی امراض میں مبتلا ہوکے اب تک بائیس سو سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت سے مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کو اپنی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے جس میں اب تک تیس ہزار سے زائد یمنی شہری شہید و زخمی اور دسیوں لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ سعودی عرب کی جانب سے اس غریب عرب ملک کے جاری محاصرے کی بنا پر اس ملک میں غذائی اشیا اور دواؤں کی بھی شدید قلت ہے اور اس وجہ سے بھی عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔