صہیونی مبصرین اسرائیل کی اسٹریٹیجک شکست کا اعتراف کر رہے ہیں: سید حسن نصر اللہ
688
M.U.H
14/03/2024
لبنان میں اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ماہ رمضان میں قرآنی محفل سے خطاب کرتے ہوئے حماس کے طوفان الاقصی آپریشن میں فلسطینیوں کو حاصل ہونیوالی فتح اور غاصب صہیونی حکومت کی شکست کے متعلق کہا ہے کہ آج پوری دنیا کے لئے غزہ میں فلسطینیوں کی مقاومت مایہ عبرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلی درجے کے صہیونی ماہرین و مبصرین اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کو عبرتناک شکست ہوئی ہے، آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز کے چھ مہینے بعد جارح اسرائیلی فوج کو غزہ میں ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج نتن یاہو غزہ میں شکست کا احساس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر رفح پر حملہ نہیں کیا گیا تو ہمیں شکست ہوگی، درحقیقت حماس کو ختم کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اسرائیل کو پہلے ہی شکست ہو چکی ہے۔
رمضان المبارک کی مناسبت سے منعقد ہونیوالی محفل قرآن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ حماس نے مذاکرات کی میز پر اپنی شرائط کے تحت جنگ بندی کی شرائط پیش کی ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ حزب اللہ حماس اور فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی حمایت جاری رکھے گی، غزہ میں صہیونی جارحیت کو ہر حال میں ختم کرنا ہوگا جو کہ عقلی اور منطقی مطالبہ ہے۔ انہوں نے یمنی فوج کی جانب سے ہونے والی کاروائیوں کو فلسطینی عوام کی حمایت میں اہم اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کاروائیوں کی وجہ سے اسرائیلی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عراقی مقاومت بھی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے صہیونی تنصیبات پر حملے جاری رکھے گی۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد کے موقع پر بیروت کے مضافات
میں نیتن یاہو سے کہتا ہوں، اگر آپ رفح جاو بھی تو جنگ ہار چکے ہو، 6 ماہ گزرنے کے بعد بھی نیتن یاہو اپنے اعلان کردہ اہداف میں سے مطلوبہ فتح کی تصویر تک نہیں حاصل کر سکا، نتیجہ یہ ہے کہ امریکی اور یورپی اسرائیلیوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم غزہ میں مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے۔
میں اپنے خطاب میں حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے غزہ اور مختلف محاذوں پر صہیونی دشمن کیساتھ جاری جنگ کے حوالے سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک میں بھی تمام محاذوں سے غزہ کی حمایت جاری رہیگی۔ تقریر کے آغاز میں سید حسن نصر اللہ نے ماہ مبارک رمضان کی آمد کی مبارکباد دی۔ انکا کہنا تھا کہ غزہ کی امداد صرف مالی اور فوجی مدد تک محدود نہیں ہے، ہمیں دعاوں کے ذریعے فلسطینی عوام کی حمایت بھی کر سکتے ہیں، خاص طور پر ان دنوں میں جب ہم عالمی خاموشی کے سائے میں غزہ کے عوام کے خلاف دشمن کے گھناؤنے جرائم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کا شوق جہاد ایمان اور قرآنی ثقافت کی وجہ سے ہے اور جوانوں کے شائع ہونیوالے وصیت نامے ان کے شہادت سے عشق کے شاہد ہیں، شہید جب اس فانی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کا دیدار سے انہیں اطمینان نصیب ہوتا ہے، جہاں وہ نشاط و مسرت پاتے ہیں، کیونکہ شہادت بڑی سعادت ہے۔
غزہ کے عوام کی شجاعت اور شہدا کے پسماندگان کا اطمینان ایک قرآنی معجزہ ہے:
ان کا کہنا تھا کہ ہم شہدا کے پسماندگان کو پرسکون اور بااطمینان دیکھتے ہیں، وہ راضی و خوشنود اور سربلند ہیں، یہ حالات غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور عراق کا معمول ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امت مسلمہ جن عظیم مصائب سے دوچار ہے، ان میں سے ایک خطے میں بڑے شیطانوں کی موجودگی اور مقبوضہ فلسطین میں اس غاصب رجیم کا قبضہ ہے۔ ان کہنا تھا کہ ان حالات میں ہماری ذمہ داری اس ستم گر رجیم کے سامنے ڈٹے رہنا اور مقاومت کی مالی و جانی حمایت اور مدد ہے۔ انہوں نے کہا کہ غاصب رجیم کیخلاف مقدس جہاد کو چھ ماہ ہو گئے ہیں کہ ہم ان کے خلاف برسرپیکار ہیں، غزہ کی حمایت جاری ہے، لیکن فلسطین اور
ہم شہدا کے پسماندگان کو پرسکون اور بااطمینان دیکھتے ہیں، وہ راضی و خوشنود اور سربلند ہیں، یہ حالات غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور عراق کا معمول ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امت مسلمہ جن عظیم مصائب سے دوچار ہے، ان میں سے ایک خطے میں بڑے شیطانوں کی موجودگی اور مقبوضہ فلسطین میں اس غاصب رجیم کا قبضہ ہے۔
غزہ کے عوام کی شجاعت اور مردانگی ایک معجزہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مجاہدین اور عوام کے صبر و استقامت نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ کیا چیز ہے، جو انہیں یہ صبر و استقامت عطا کرتی ہے، ہم بتاتے ہیں کہ اس صبر و بردباری کا سبب قرآن کی تعلیمات ہیں۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن عظیم اور اسٹریٹجک کامیابیوں کے حصول کا باعث بنا:
ان کا کہنا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن عظیم اور اسٹریٹجک کامیابیوں کے حصول کا باعث بنا، جو غاصب صیہونی حکومت کی موجودگی اور خطے میں اس کے مستقبل کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کہتے ہیں کہ اگر وہ رفح میں داخل نہیں ہوئے تو وہ جنگ ہار جائیں گے، میں نیتن یاہو سے کہتا ہوں، اگر آپ رفح جاو بھی تو جنگ ہار چکے ہو، 6 ماہ گزرنے کے بعد بھی نیتن یاہو اپنے اعلان کردہ اہداف میں سے مطلوبہ فتح کی تصویر تک نہیں حاصل کر سکا، نتیجہ یہ ہے کہ امریکی اور یورپی اسرائیلیوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم غزہ میں مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے صیہونی حکومت، امریکہ اور مغرب کی جانب سے مزاحمت کے خلاف شروع کی جانے والی میڈیا مہمات اور نفسیاتی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے عرب ممالک بھی ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرب سیٹلائٹ نیٹ ورکس اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود غزہ کے عوام کے ارادے پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔
مذاکرات میں فلسطینی مزاحمت کا موقف دانشمندانہ اور منطقی ہے:
سید حسن نصر اللہ نے حال ہی میں قاہرہ میں غزہ جنگ بندی کے حوالے ہونیوالے مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی شکست کی ایک اور علامت یہ ہے کہ حماس فلسطینی مزاحمت اور پورے مزاحمتی محور
کون کہتا ہے کہ امریکی حکومت اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے قابل نہیں ہے اور کون یہ مان لے کہ امریکی صدر جو بائیڈن غزہ کے خلاف جنگ نہیں روک سکتے؟، اگر بائیڈن صرف اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کر دیں تو یہ جنگ رک جائے گی۔ بائیڈن خوراک کو ہوا سے غزہ میں پھینک کر دنیا کو دھوکہ دینا چاہتا ہے، لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ امریکی حکومت ایک احمق حکومت ہے۔
کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، حماس نے مذاکرات نے کبھی کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہمیشہ اپنی شرائط پر بات کی ہے، مزاحمت کا موقف ایک دانشمندانہ، منطقی اور شرعی ہے اور اس میں غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقاومت کا موقف شرافتمندانہ، انسانی اور اخلاقی ہے، سب کو چاہیے کہ اس کی حمایت کریں، مسئلہ فقط جنگ بندی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے دشمن کے جرائم، تجاوز اور ظلم و ستم کو ختم ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پوری قوت کیساتھ حماس کی قیادت کیساتھ کھڑے ہیں، مذاکرات میں حماس کی شرائط صو فیصد درست ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس میں کتنا وقت لگے اور کتنی ہی قربانی کی ضرورت کیوں نہ پڑے، ہم غزہ کی حمایت کے موقف پر قائم رہیں گے۔
خوراک کے پیکٹ پھینک کر امریکی کسی کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے:
انہوں نے نیتن یاہو سمیت صہیونی رہنماؤں کے ساتھ اختلافات کے حوالے سے امریکیوں کی جانب سے شروع کیے گئے پروپیگنڈہ ہتھکنڈوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کون کہتا ہے کہ امریکی حکومت اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے قابل نہیں ہے اور کون یہ مان لے کہ امریکی صدر جو بائیڈن غزہ کے خلاف جنگ نہیں روک سکتے؟، اگر بائیڈن صرف اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کر دیں تو یہ جنگ رک جائے گی۔ سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ بائیڈن خوراک کو ہوا سے غزہ میں پھینک کر دنیا کو دھوکہ دینا چاہتا ہے، لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ امریکی حکومت ایک احمق حکومت ہے۔ انہوں نے یمنی مزاحمت اور یمنی عوام کی طرف سے غزہ کی حمایت کے بارے میں کہا کہ یمن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی چوبیس گھنٹے جارحیت یمنی مجاہدین کو اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنانے
مام موسیٰ صدر نے 1975 میں اپنی ایک تقریر میں فلسطینی قوم کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اسے عاشورہ سے تشبیہ دی تھی اور قدس کے راستے میں شہادت کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا تھا۔ آج لبنان میں بعض معروف جماعتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ لبنانی مزاحمتی کارروائیوں سے غزہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ جماعتیں جو باتیں کہتی ہیں وہ گمراہ کن اور فریب پر مبنی ہیں۔
سے نہیں روک سکتی۔
اپنی ہلاکتیں چھپانے والی قابض فوج کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے:
سید حسن نصر اللہ نے لبنانی مزاحمتی تحریک کے حملوں کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ کے مفلوج ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں ہم نے مزاحمتی کارروائیوں میں تیزی کے جواب میں دشمن کے حواس باختہ ہوکر ردعمل دینے اور اسرائیلی رجیم کیخلاف صیہونی آبادکاروں کے غصے میں اضافہ دیکھا ہے۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے فلسطین کے بارے میں 1975 میں امام موسیٰ صدر کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام موسیٰ صدر نے 1975 میں اپنی ایک تقریر میں فلسطینی قوم کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اسے عاشورہ سے تشبیہ دی تھی اور قدس کے راستے میں شہادت کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا تھا۔ آج لبنان میں بعض معروف جماعتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ لبنانی مزاحمتی کارروائیوں سے غزہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ جماعتیں جو باتیں کہتی ہیں وہ گمراہ کن اور فریب پر مبنی ہیں اور کاش کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ کے بارے میں صہیونی حکام کی باتوں کو سنتے۔
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر اس لڑائی کے دوران، تمام اسرائیلی جانتے ہیں کہ ان کی فوج، حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی میں اپنے حقیقی مالی اور انسانی نقصانات کو چھپاتی ہے، ہم نے صہیونیوں کے فوجیوں، ٹینکوں اور آلات پر اپنے حملوں کے بارے میں متعدد دستاویزات تیار کی ہیں، وزیر جنگ یوآو گیلانٹ اور قابض فوج کے چیف آف سٹاف ہرتزی ہالیوی نے کئی بار اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی افواج غزہ اور شمالی محاذ پر بھاری قیمت ادا کر رہی ہیں، ہلاک ہونے والے صہیونیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو اسرائیلی فوج اعلان کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حریدی
دشمن کی شکست کی ایک اور علامت یہ ہے کہ حماس فلسطینی مزاحمت اور پورے مزاحمتی محور کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، حماس نے مذاکرات نے کبھی کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہمیشہ اپنی شرائط پر بات کی ہے، مزاحمت کا موقف ایک دانشمندانہ، منطقی اور شرعی ہے اور اس میں غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے پر زور دیا گیا ہے۔
جو صرف تورات کی تلاوت کرتے رہتے ہیں، انہیں فوج میں بھرتی کے لیے بلائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فوج کو اپنے فوجیوں اور افسروں کی تعداد میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے، صہیونی فوج 14,500 فوجیوں کو بھرتی کرنا چاہتی ہے اور حریدیوں کو فوج میں شامل کرنا چاہتی ہے، جبکہ مزاحمت ہر روز اپنے شہداء کے ناموں کا بڑے فخر سے اعلان کرتی ہے اور ان کے لیے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے، دشمن اپنے مرنے والوں کی تعداد چھپاتا ہے اور جانتا ہے کہ ہلاکتوں کے اعلان کا اس فوج پر کیا اثر پڑتا ہے۔
حزب اللہ کی مزاحمت حملہ آوروں کو لبنان پر حملہ کرنے سے روک رکھا ہے:
جنوبی لبنان میں ہونے والے معاشی نقصانات کا موازنہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے بھاری نقصانات سے نہیں کیا جا سکتا، جو چاہے اس کا تخمینہ لگا لے کہ جنوبی لبنان میں مزاحمت کیا کر رہی ہے، دیکھئے کس طرح مزاحمتی قوت نے دشمن کو لبنان پر حملہ کرنے سے روکا، غزہ اب بھی ثابت قدم اور مزاحمت کے راستے پر کھڑا ہے اور جنوبی لبنان و عراق کے تمام مزاحمتی گروہوں نے بھی دشمن کیخلاف محاذ کھول رکھے ہیں، آخر میں فتح صبر کرنے والوں کی ہے اور ہمیں قابض فوج اور صہیونی معاشرے میں تھکاوٹ کے آثار نظر آتے ہیں، ڈٹ جانا اور مزاحمت کرنا ہم سب کا فرض اور ذمہ داری ہے، محور مقاومت مضبوط پوزیشن میں ہے اور دشمن کی پوزیشن کمزور ہے۔ سید حسن نصراللہ نے آخر میں ان تمام آزادی پسندوں کا شکریہ ادا کیا جو پوری دنیا اور امریکہ میں غزہ کی حمایت کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں، جو بائیڈن کے خلاف مسلسل احتجاج اور اسرائیل کی جارحیت کی مخالفت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عوامی دباؤ (فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے) امید کی کھڑکی کھول سکتا ہے۔