صہیونیوں سے تعلقات کو معمول پر لانے والی حکومتوں کو اپنی غلطی کا ازالہ کرنا ہوگا:آیت اللہ خامنہ ای
3017
M.U.H
25/10/2021
قائد اسلامی انقلاب نے اعلی ایرانی حکام اور عالمی اتحاد امت کانفرنس میں حصہ لینے والے کچھ مہمانوں سے ایک ملاقات میں بعض علاقائی ممالک کیجانب سے صہیونی ریاست سے تعلقات کو معمول پر لانے کو ایک بہت بڑی غلطی اور گناہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان حکومتوں کو اپنے اس اقدام اور اسلامی اتحاد کیخلاف رویوں سے دستبردار ہونا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق، قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نےاعلی ایرانی حکام اور عالمی اتحاد امت کانفرنس میں حصہ لینے والے کچھ مہمانوں سے ایک ملاقات میں امت مسلمہ کے دو اہم فرائض کو "انسانی زندگی کی تمام پہلووں میں جامع اسلام کے وضاحت اور فروغ" اور "مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی تقویت" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی اتحاد ایک بینادی موضوع اور قرآنی فرض ہے اور شعیوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد کے بغیر نئی اسلامی تہذیب کا قیام ممکن نہیں ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ سیاسی اور مادی طاقتیں طویل عرصے سے اسلام کو انسانی زندگی کی تمام پہلوؤں کے لیے ایک جامع مذہب کے طور پر پیش کرنے پر نہیں بلکہ انفرادی عمل اور دلی عقیدے کے معاملے کے طور پر پیش کرنے پر زور دیتی رہتی ہیں اور اسے ادیبوں اور دانشوروں کی زبان سے نظریہ دے کر کہتے ہیں کہ اسلام میں "معاشرے کی تہذیب اور انتظام" "معیشت اور طاقت اور دولت کی تقسیم"، "جنگ اور امن"، "ملکی اور خارجہ پالیسی"، "انصاف کا قیام اور ظلم و برائی کا مقابلہ کرنا" جیسے مسائل نہ تو کوئی فکری حوالہ ہے اور نہ ہی عملی رہنما۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام کی سرگرمی اور اثر و رسوخ کا میدان دل کی گہرائیوں اور عبادات کے معاملات سے لے کر سیاسی، اقتصادی، سماجی، سلامتی اور بین الاقوامی مسائل تک انسانی زندگی کی تمام پہلووں میں ہے، اور جو بھی اس مفہوم کا انکار کرے، اس نے قرآن پاک کی متعدد آیات پر یقیناً توجہ نہیں دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی اتحاد اصولی معاملہ ہے، حکمت عملی کا معاملہ نہیں اور یہ مخصوص حالات کیلئے ہے اور یہ ہم آہنگی مسلمانوں کو غیر مسلم ممالک کے ساتھ دل و جان سے تعلقات استوار کرنے کے لیے مضبوط کرتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اتحاد کے مسئلے پر بار بار زور کو مذاہب کے درمیان بہت دوری اور اس حوالے سے دشمنوں کیجانب سے فاصلے بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج، امریکی سیاسی ادب میں شیعی اور سنی کے لفظ داخل ہو گئے ہیں جبکہ وہ اسلام کے اصولوں کے سرے سے مخالف اور دشمن ہیں۔
قائد اسلامی انقلاب نے دنیا کے کونے کونے میں امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کیجانب سے دنیائے اسلام میں فتنہ کھڑا کرنے کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے افغانستان کی مساجد میں حالیہ دہشتگردانہ کاروائیوں پر بڑے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں داعش عناصر ملوث ہیں اور امریکہ نے واضح طور کہا تھا کہ اس نے داعش کی تشکیل دی ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ نئی اسلامی تہذیب کے اہم مقصد کا حصول، شعیوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا اہم عنصر مسئلہ فلسطین ہے اور جتنا ہی فلسطینی عوام کے حقوق کی فراہمی کی کوشش کی جائے اتنا ہی اسلامی اتحاد مضبوط ہوجائے گا۔
انہوں نے بعض علاقائی ممالک کیجانب سے صہیونی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانے کو ایک بہت بڑی غلطی اور گناہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان حکومتوں کو اپنے اس اقدام اور اسلامی اتحاد کیخلاف رویوں سے دستبردار ہونا ہوگا۔
واضح رہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کی تقریر سے پہلے صدر مملکت نے تقریر کرتے ہوئے کورونا وبا پر قابو پانے اور عوام کی ضروری مصنوعات کی فراہمی کو تیرہویں حکومت کی دو اہم ترجیحات قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن سے عوام کی صحت کے تحفظ پر بڑے بڑے اقدامات اٹھائے ہیں اور عوام کی بنیادی سامان کی فراہمی سے بھی اس مسئلے کا حل کیا گیا۔
علامہ رئیسی نے ایران کی خارجہ پالیسی کو دنیا بالخصوص پڑوسیوں سے بڑے پیمانے پر تعاون قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم ایران کی معیشت کو مذاکرات اور ان جیسے مسائل سے نہیں جوڑتے ہیں؛ ہم نے جس بات پر وعدہ کیا تھا اس پر پابند رہا تا ہم امریکہ اور یورپ اب فیصلہ کرنے کے بحران میں ہیں۔