قاہرہ میں سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کے وزرائے خارجہ کے اجلاس اور اس کے بعد مشترکہ بیان میں اس بات کی تاکید کہ قطر سے گفتگو کے لئے اب کچھ باقی نہیں رہا ہے، ان ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران اعلان جنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس بیان میں کہی گئی بات کہ گفتگو کا کوئی امکان نہیں رہا ہے، اس بات کی نشاندہی ہے کہ سعودی اتحاد کی وہ امیدیں خاک میں مل گئی ہیں جن کا وہ قطر کی نرمی کے حوالے سے سپنے دیکھ رہا تھا۔
قطر کی طرف سے مایوس کن جواب ملنے کے بعد ان ممالک نے دوحہ کو دھمکی دی ہے کہ اس کے خلاف عائد پابندیاں مزید سخت ہوں گی۔
قاہرہ میں مصر، بحرین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے ایک روز قبل ہی اسی شہر میں ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے اجلاس میں بعید نہیں ہے کہ قطر کو سزا دینے اور اس کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے کے سلسلے میں گفتگو ہوئی ہو۔ اور یہ بہت خطرے کی بات ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ سعودی عرب اور ابوظہبی کی خواہش کے مطابق دوحہ کے حکمران خاندان کے خلاف اقدام کرتے ہوئے یہ ممالک قطر میں بدامنی اور انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کریں۔
اس بیان میں قطر کی خلاف تند و تیز لہجے سے سمجھا جا سکتا ہے کیوں کہ ایک بار پھر تاکید کی گئی ہے کہ قطر ان کی تمام شرائط کو تسلیم کرے جبکہ قطر کا ماننا ہے کہ یہ شرائط ان کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے کے مانند ہے۔
اس بیان کے تند و تیز لہجے کے سبب اس بات کی امید کم ہی ہے کہ ان ممالک کے درمیان گفتگو کا امکان باقی رہے۔اس بیان کی تمام باتوں پر متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ انور قرقاش کے اظہارات نے اس وقت مہر لگا دی ہے جب انہوں نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس کا حاصل یہ ہے کہ ہم چار ممالک کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ ہم گفتگو کے جال میں نہیں الجھیں گے اور قطر کو یہ موقع نہیں دیں گے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف ہماری جنگ میں رخنہ اندازی کرے۔دوحہ کو صلح و آشتی کی امید تھی لیکن اب یہ بحران طویل ہوگا اور یہ قطر کی اہمیت اور قدر و قیمت نیز دنیا بھر میں اس کی ساکھ پر سوال کھڑا کردے گا۔