رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر مارٹن انڈیک اور قومی سلامتی کے سابق امریکی مشیر اسٹفن ہیڈلی کے نام اپنے ایمیلوں میں اس بات کی خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ جنگ یمن سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔جنگ یمن سے باہر نکلنے سے متعلق سعودی حکام کے بیانات اپنی ہی شروع کردہ اس جنگ میں سعودیوں کی ناکامی کی علامتہے اور حالات نے سعودی حکام کو جنگ یمن میں اپنی ناکامی کے اعتراف پر مجبور کردیا ۔ سعودی اتحاد تمام تر فوجی وسائل اور امریکہ کی بھرپور حمایت کے باوجود جنگ یمن میں کچھ بھی حاصل نہیں کرپایا۔سعودی عرب کے سرگرم سیاسی کارکن مجتھد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ سعودی فوج کو جنگ یمن میں فوجی، سیاسی اور انیٹلی جینس کے لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ اس جنگ میں کامیاب رہی ہے۔سعودی عرب نے مارچ دوہزار پندرہ میں یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا اور اسے توقع تھی کہ یہ جنگ بڑی تیزی کے ساتھ انصاراللہ کی شکست پر ختم ہوگی لیکن یہ جنگ نہ صرف مختصر مدت میں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کو دوسال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ہوائی حملوں میں عام شہریوں کا قتل عام، القاعدہ کی حمایت، اور یمن میں داعش کی موجودگی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش، یمن کے انقلابی عوام کے مقابلے میں سعودی حکام کی بے بسی کی علامت ہے اور اس جنگ میں بلا شبہہ سعودی عرب کو بڑی ناکامی کا سامنا ہے۔یمن کے معروف دفاعی مبصر اسماعیل الحسنی کا کہنا ہے کہ خطے میں آل سعود کی فوجی اسٹریٹیجی ناکام ہوچکی ہے اور انہیں ایک طرح کی بے چارگی کا سامنا ہے اور اگر سعودی خودکشی ہی کرنا چاہتے ہیں تو وہ شوق سے یمن پر حملے جاری رکھیں۔بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو جنگ یمن پر روزانہ دوسو ملین ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں اور اس صورتحال نے سعودیوں کو امریکی حکام کو یہ بتانے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اس جنگ کو جاری رکھنے پر قادر نہیں ہے تاکہ امریکیوں کی مدد سے اپنے ہی پیدا کردہ بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرسکیں۔