تہران - ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران نے مغربی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے نفاذ پر اپنے تمام وعدوں پر دیانت داری کے ساتھ عمل کیا ہے مگر امریکہ نے اپنے حصے کا کردار پوری طرح ادا نہیں کیا۔ یہ بات 'محمد جواد ظریف نے گزشتہ روز نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سالانہ اعلی سطحی سیاسی نشست کے موقع پر 'سی این این ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر انہوں نے چار امریکی سینیٹر کی جانب سے ایران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام لگانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے کی سات رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے جوہری معاہدے کے نفاذ سے اب تک اپنے تمام وعدوں بالکل عمل کیا مگر بد قسمتی سے امریکہ اپنے وعدوں پر قائم رہ نہیں ہے۔ظریف نے کہا کہ امریکی صدر 'ٹرمپ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں G20 اجلاس میں شرکت کرنے کا مقصد دوسرے ممالک ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم نہیں کرنا تھا اور اس کے ایسے اقدام جوہری معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی جوہری توانائی ادارے کی رپورٹوں کے مطابق ہمارے ملک اپنے جوہرے معاہدے پر عملدرآمد کررہا ہے اور اس عالمی ادارے نگرانی اور تصدیق کی اہم ذمہ دار ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس عالمی معاہدے کے ساتھ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام روک نہیں کیا جائے گا اور معاہدے نے ایران کی یورینیم کی افزودگی کے حق کو تسلیم کیا اور یہ افزودگی پرامن مقاصد کے لئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورینیم کی افزودگی کی سائنس ایرانی ماہروں کی کوششوں کے ساتھ حاصل ہوتا اور اس کا روکنا ممکن نہیں ہے.۔انہوں نے بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے جوہری معاہدے سے پہلے اور اس کے دوران ثابت کیا کہ جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے نے ایک بار پھر تصدیق کیا کہ ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کا الزامات بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بعض ممالک جان بوجھ ایران فوبیا کا پھیلنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی تاریخ بہت ہی واضح اور روشن ہے.۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کیمیائی ہتھیاروں کا شکار ہوگیا ہے اور اس ملک نے ہرگز کیمیائی ہتھیاروں سے استعمال نہیں کیا کیونکہ اس کا مقصد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانا نہیں اور ہمارے رائے میں جوہری ہتھیاروں پوری دنیا کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔انہوں نے ایران کی جانب سے شام کی حمایت کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام، افغانستان، عراق اور دوسرے علاقائی ممالک کے حوالے سے ہماری پالیسی ایک ہی ہے اور ہم دہشتگردی، انتہاپسندی، القاعادہ اور طالبان کے ساتھ مخالفت کرکے اسی لئے عراق کی طرح شام کی حمایت کررہے ہیں۔ظریف نے شام میں جائز اپوزیشن کے حوالے سے کہا کہ ہم نے 2013 میں ایک چار نکاتی حل پیش کیا جو وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی بنیاد پر کیا گیا تھا اور اس کے تحت تنازعات کی بجائے ترقی اور باہمی تعاون کرنا چاہیئے۔انہوں نے اپنے چار نکاتی حل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں داعش اور النصرہ فرنٹ دہشتگردوں کے مقابلے میں ایک جامع جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لئے بھرپور کوششیں کرنا چاہیئے اور یہ ایک حل ہے۔انہوں نے دوسرے حل کے حوالے سے کہا کہ شامی صورتحال بہت ہی نازک اور پیچیدہ ہے اسی لئے جنگ بندی کے نفاذ کے علاوہ انسانی بنیادوں پر امداد اور قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل ناگزیر ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ اپنے تیسرے حل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں ترمیم بہت ہی اہم ہے اور تمام لوگوں اقتدار میں حصہ لے سکتے ہیں اور انتخابات آئین کے مطابق ہونا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ شامی عوام کو اپنے ملک کے مستقبل پر فیصلہ کرنا چاہیئے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے اور یہ چوتھویں حل ہے۔انہوں نے یمنی عوام کی حمایت کے حوالے سے کہا کہ سعودی عرب گزشتہ دو سالوں سے اب تک اپنے میزائلی حملے کے ذریعہ یمنی مظلوم عوام کو قتل عام کررہا ہے مگر ہم فائربندی کا نفاذ، انسانی امداد، یمنی عوام کے درمیان مذاکرات کا انعقاد اور اس ملک کی قوم کی درخواست کے مطابق ایک حکومت کی تشکیل کی تجویز کو پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایسے تنازعات کے خاتمے کا طریقہ فوجی حل نہیں ہے اور سعودی عرب کے بعض اتحادیوں سمیت امریکہ اپنے فوجی طاقت کے ذریعہ سعودیوں کی کامیابی چاہتا اور یہ بڑا مسئلہ ہے.انہوں نے سابق عراقی وزیر خارجہ 'ہوشیار زیباری کے بیانات کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ زیباری نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق میں امریکہ کے خلاف جنگ کا اصلی فاتح ہے کیونکہ جبکہ داعش دہشتگردوں نے عراق کے کردستان علاقے پر حملہ کیا صرف ایران نے ان کی حمایت کیا گیا اسی لئے اربیل داعش دہشتگردوں کے قبضے سے آزاد کرالیا۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ایران کے خلاف اٹھ سالہ تحمیلی جنگ کے دوران کی طرح ہمارے ہمسایہ ممالک نے صدام حسین، داعش اور القاعدہ کی حمایت کرتے ہوئے اور اس کے لئے کیمیائی ہتھیاروں فراہم کیا۔