قطر بحران شروع ہونے کے بعد امیر قطر نے پہلی بار خطاب کیا اور سعودی اتحاد کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کیوںکہ سب کو اس بات کی امید تھی کہ امیر قطر بحران کے حل کے لئے سعودی اتحاد کی شرائط پر نرمی دکھا سکتے ہیں۔
قطر سے امتیاز حاصل کرنے میں ناکامی
امیر قطر کے خطاب سے بعض عناصر کو امید تھی کہ وہ سعودی اتحاد کی شرائط پر لچک دکھائے گا خاص کر جب چند روز پہلے امیر قطر نے ملک کے قانون میں اصلاح کا حکم جاری کیا تھا جس کے سبب امید ہو چلی تھی کہ قطر اس مسئلے میں نرمی دکھا سکتا ہے۔یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ انور قرقاش نے امیر قطر کے اس حکم کا استقبال کرتے ہوئے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا تھا۔
امیر قطر نے اپنی تقریر میں دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا
پہلا یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا قطر کی قومی حاکمیت اور استقلال کو قبول کرے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ انہوں نے حریف کی آمریت، دھمکیوں اور شرائط کو رد کرتے ہوئے اس بحران کے حل کے لئے بنا کسی شرط کے مذاکرات کیلئے آمادگی کا اظہار کیا۔امیر قطر کی باتوں کے مدنظر کہا جا سکتا ہے کہ قطر کو یہ منظور نہیں کہ کوئی اس کی خارجہ پالیسی متعین کرے جو سعودی اتحاد کی پیش کردہ شرائط کے سراسر خلاف ہے حالانکہ سعودی اتحاد میں شامل چاروں ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے اپنے 13 شرائط کو محدود کرتے ہوئے صرف 6 شرطیں باقی رکھی ہیں لیکن امیر قطر کے مطابق یہ 6 شرائط بھی ملک کی حاکمیت اور استقلال کے منافی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابھی تک امیر قطر کے خطاب پر آل سعود کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس بات کا احتمال ہے کہ آل سعود کی قیادت میں یہ ممالک قطر کے خلاف اور سخت تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔مصر میں کھلنے والی مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی چھاونی میں ابو ظبی کے ولی عہد محمد بن زاید اور سعودی بادشاہ کے مشیر خالد بن فیصل کی شمولیت شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو۔مذکورہ صورت حال میں اس بحران کے مسالمت آمیز حل و فصل کے کوئی آثار نہیں ہیں بلکہ اختلاف مزید گہرے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔