اسلام آباد، 27 مارچ، ارنا - اعلی ایرانی سفارتکار اور سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسلامی عسکری اتحاد صرف نام کا ہے، پاکستان نے یمن جنگ میں حصہ نہ لیکر اچھا فیصلہ کیا.
یہ بات اسلامی جمہوریہ ایران کی سٹریٹجک کونسل برائے خارجہ تعلقات ایران کے سربراہ ڈاکٹر 'سید کمال خرازی' نے دورہ پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی.
اس سمینار کا عنوان "عالمی اور خطے کے ابھرتے منظرنامے کے بارے میں ایرانی نقطہ نظر" تھا.
ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ دہشتگردی کے حامی اور علاقائی امن کو متاثر کرنے والے ممالک امریکہ کو اربوں ڈالر بہتے کے طور پر دیتے ہیں جن کا یہی مقصد ہے کہ امریکہ ان کی جارحانہ اور غیرتعمیری پالیسیوں کی حمایت کرے.
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایران نے اپنی سیکورٹی کے لیے شامی صدر بشار الاسد کا ساتھ دیا، شامی حکومت گرجاتی تو یہ خطے اور دنیا کے لئے خطرہ بن جاتا.
انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے دورے سے تعلقات بہتر ہوں گے.
ڈاکٹر خرازی نے بتایا کہ ایران دہشتگردوں کے گھیرے کے باوجود محفوظ ملک ہے اس کے لئے ایرانی قوم نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں ایران اپنے پائوں پر کھڑا ہوا ہے اور اپنے ملک کے دفاع کے لئے ہر حال میں تیار ہے.
انہوں نے کہا کہ داعش کو ایرانی انقلاب روکنے کے لیے بنایا گیا ہے ایران کو اپنی سیکورٹی اہم ہے اور اس لئے ہم نے شامی حکومت کے ساتھ مل کر داعش کو شکست دی ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ وطن عزیز ایران میں حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت میں انقلاب شیعہ انقلاب نہیں بلکہ اسلامی انقلاب ہے اور اس کو روکنے کے لیے داعش اور دہشتگرد تنظیموں کی مدد کی جا رہی ہے.
اعلی ایرانی سفارتکار نے یہ انکشاف کیا ہے امریکہ افغانستان میں ایک لمبے عرصے کے لئے رہنا چاہتا ہے تا کہ وہ چین، روس اور ایران کا مقابلہ کر سکے اور اس کے لئے وہ افغانستان میں بھی داعش کو لے کر آنا چاہتے ہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری انٹیلی جنس کی رپورٹس ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ امریکہ داعش کے سربراہوں کو ہیلی کاپٹر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا ہے.
خرازی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور پاکستان دونوں ممالک کے مفاد پرُامن افغانستان میں ہیں جبکہ امریکہ اپنے مفادات کے لیے افغانستان میں کام کر رہا ہے. انہوں نے کہا کہ ہم مشترکہ مفادات کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں. ہم دو پڑوسی ہیں اور ہم ایک دوسرے کو تبدیل نہیں کر سکتے اس لیے ہم مقامی تعاون کو اہمیت دیتے ہیں اور اسی سے ہم اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں. کمال خرازی نے مزید کہا کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ ایران کی فتح تھی اور ایران اب بھی اس معاہدے پر عمل پیرا ہے جبکہ امریکہ اس سے نکلنے کی تیاری کر رہا ہے دوسری جانب مغربی ممالک بھی جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں.
مشرقی وسطی کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ عرب سپرنگ کی وجہ سے مسلم ممالک میں انتشار پیدا ہوا ہے جس سے انتہا پسندی پروان چڑھی ہے اور دہشتگردوں نے ان ممالک میں اپنی جگہ بنائی ہے.
انہوں نے کہا کہ بھارت اور ایران کا باہمی تعاون کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہوسکتا جس طرح پاکستان سعودی اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہوسکتا. پاکستان اور ایران ثقافتی، مذہبی ، جغرافیائی اور تاریخی طور پر صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، پڑوسی ہیں ان کے مفادات اور روایات مشترک ہیں. ان تعلقات کو معاشی مفادات میں بدلنے کی ضرورت ہے جس سے علاقے میں ترقی کی رفتار تیز ہوجائے گی.
ڈاکٹر خرازی نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کی پالیسی میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کی اہمیت نہیں ہے. ایران اور بھارت کے تعلقات کا پاک ایران تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.
امریکہ، بھارت اور ناجائز صہیونی ریاست کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر ملک اپنے مفادات کے مطابق عمل کرتا ہے. ہمیں بھی اپنے اختلافات کو دور کرکے مشترکہ مفادا ت کے لیے تعاون کرنا چاہیے. ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ ایرانی بندرگاہ چابہار اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آپس میں ملنے سے خطے میں بہت بڑی معاشی تبدیلی آئے گی. انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے بارے میں ہماری مفاہمت یہ ہے کہ اگلی حکومت میں اگر طالبان شامل ہوگئے تو امریکہ کے افغانستان میں قیام کا جواز ختم ہوجائے گا. اس سلسلے میں پاکستان اور ایران کو مل کر کام کرنا چاہیے اور افغانستان میں امن کے قیام میں طالبان کی شرکت کی حمایت کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان اور ایران افغانستان کے مسئلے میں سب سے زیادہ اور براہ راست متاثرہ ممالک ہیں.
ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے. وہ اس سے بھاگنا چاہتا ہے جبکہ ایران اس معاہدے پر قائم ہے. اس کے باوجود ہم دوسری صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہیں. جبکہ یورپی ممالک امریکہ پر دباو ڈال رہے ہیں ایران امریکہ نیوکلیر ڈیل کو نہ توڑا جائے.
ڈاکٹر کمال خرازی نے کہا کہ داعش کو ایرانی انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے بنایا گیا تھا مگر وہ اس مقصد میں ناکام رہی. داعش نے 80 ہزار فوج بھرتی کی ہے جس میں 50 ہزار مختلف ممالک سے جنگجو لائے گئے ہیں. اگر عراق اور شام میں داعش کامیاب ہو جاتی تو دونوں ممالک کے حصے بخرے ہوجاتے اور اس کا فائدہ صہیونیوں کو ہوتا.
شام کی موجودہ صورتحال اور بشارالاسد کی حکومت کی ایران کی جانب سے حمایت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری رپورٹ کے مطابق داعش کے ذریعے اسرائیل شام کو توڑ کر دو ملک بنانا چاہتا ہے. ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ امت مسلمہ کے خلاف ہے. ہمارا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر طاقتیں اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ کیوں ہیں . اگر ایسا ہو جائے گا تو اس کا براہ راست اثر ایران پر ہوگا. اس لیے ہم نے شام کی یکجہتی کے لیے بشارالاسد حکومت کی حمایت کی ہے. یہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے. اس لیے کہ ہم فلسطین، عراق، پاکستان میں سنیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں.
سمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا ہے کہ فلسطین اور کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں مگر ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا.
انہوں نے بتایا کہ پوری مسلم دنیا جنگوں کی لپیٹ میں ہے مسلم خطوں پر دیگر ممالک نے جنگ مسلط کی ہوئی ہے ایران اور پاکستان دونوں کو مسلم ممالک کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا.
شمشاد احمد خان نے مزید کہا کہ اسلامی عسکری اتحاد ایسا کوئی کام نہیں کرے گا جس سے ایرانی مفادات کو خطرہ ہو، اسلامی عسکری اتحاد سے ایران کو کوئی خطرہ نہیں.
اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمان نے بھی کہا ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ مفادات کے لئے کام کر سکتے ہیں اور مل کر ہی معیشت اور تجارت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور خطے کے مسلمانوں کے اختلافات دور کرنے میں دونوں ممالک نمایاں مقام رکھتے ہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صدی میں تہذیبوں کے ٹکرائو کے بعد مسلم ممالک کا اتحاد ضروری ہے ایران اور پاکستان کو ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور دونوں کے دشمنوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ ان کو کمزور کیا جائے