دبئی ۔ قطر پر بائیکاٹ نافذ کرنے والی چار عرب ریاستوں نے دوحہ حکومت کو الٹی میٹم جاری کیا ہے کہ وہ الجزیرہ ٹی وی بند کرے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرے ترک اڈہ بند کرے اور تاوان ادا کرے۔
یہ مطالبات اس قدر سخت ہیں کہ دوحہ حکومت کے لئے ان کو جاننا بہت مشکل ہے ہوگا۔
سعودی عرب مصر بحرین اور متحدہ عرب امارا ت 13 نکاتی مطالبات کی فہرست بھی ہے جن کا مقصد ننھی منی مگر دولت مند ہمسایہ کی دو دہائی پرانی مداخلت کی خارجہ پالیسی کو بدلوانا ہے جب سے وہ برافروختہ ہیں ۔ کویت اس تنازعہ میں ثالثی کررہا ہے۔
قطری حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ حکومت مطالبات کا جائزہ لے رہی ہے۔ وزارت خارجہ باقاعدہ اس کا جواب کویت کے سپرد کرے گی۔
تاہم کہا کہ مطالبات غیر معقول اور ناقابل عمل ہیں ۔
قطر حکومت کے مواصلاتی آفس کے ڈائرکٹر شیخ سیف الٹانی نے کہا ’’مطالبات سے ا س بات کی تصدیق ہوگئی ہے جو قطر شروع سے کہا رہا ہے ۔ غیر قانونی پابندیوں کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نمٹنے سے نہیں ہے اس کا مقصد قطر کے اقتدار اعلی کو محدود کرنا اور اس کی خارجہ پالیسی باہر سے چلانا ہے۔
قطر کی نیم سرکاری انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات انسانی حقوق کنونشن کی خلاف ورزی ہیں اور قطر کو انہیں قبول نہیں کرنا چاہئے۔
وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے پیر کے روز کہا تھا کہ قطر ان چارریاستوں سے اس وقت تک بات نہیں کرے گا جب تک اس ماہ توڑنے گئے معاشی سفارتی اور سفر کے رابطے بحال نہیں ہوجاتے۔
پابندیاں لگانے والے ممالک قطر پر دہشت گردی کی مالی مدد ۔ علاقائی بے چینی کو ہوا دینے اور دشمن ایران سے قربت کے الزامات لگاتے ہیں ۔ قطرنے ان الزامات کی تردید کی ہے اس کا کہنا ہے کہ اسے پڑوسی آمرانہ خاندانی اور فوجی حکمرانوں کی حمایت نہ کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ علاقائی مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے ناقابل قبول مطالبات سے خلیجی ریاستوں کے درمیان بہت سال کے بعد پیدا ہوا اتنا بڑا سفارتی بحران جلد حل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پروفیسر ابراہم فریحات نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ معاملہ طول پکڑے گا۔ انہوں نے کہا قطر ان مطالبات کو سرے سے مسترد کرے گا۔ اس کے پڑوسی پہلے ہی بہت آگے جا چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فی الحال فوجی کارروائی کا کوئی امکان نہیں ہے جو مہلت دی گئی ہے اس کے خاتمہ پر محض سیاسی تعطل رہے گا۔ امریکہ کا تنازعہ کے دونوں جانب کے فریقوں سے قریبی فوجی تعلقات ہیں اس نے بحران کو حل کرنے کی اپیل کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ قطر کے پڑوسیوں کو اپنے مطالبات معقول اور حقیقت پسندانہ‘‘ بنانے چاہئیں۔
چار ملکوں میں سے ایک افسر نے کہا کہ اگر قطر نے دس روز کے اندر تعمیل نہیں کی تو یہ پیشکش بھی معطل ہوجائے گی۔ متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں سالوں تک چل سکتی ہیں۔ قطر نے جس کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے کہا ہےکہ یہ اس کی ناکہ بندی ہے مگر اس طوفان پر قابو پانے کے لئے اس کے پاس وسائل موجود ہیں۔ یہ جھگڑا امریکہ کے کہ بہت بڑی آزمائش ہے کیونکہ قطر میں اس کا بہت بڑا اڈہ ہے جہاں اس کے 11 ہزار فوجی تعینات ہیں اور مشرقی وسطی میں فضائی طاقت کا ہیڈکواٹر ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پابندیوں کی حمایت کی ہے مگر ان کے دفاع اور خارجہ محکموں نے غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی ہے جس سے ملا جلا رجحان ملا ہے ۔ ٹرمپ نے قطر کو ’’دہشت گردی کی اعلٰی سطح پر مالی مدد کرنے والا بنایا ہے‘‘ مگر 5 روز کے بد انکے پنٹاگن نے اسے 12 ارب ڈالر کے جنگی جہاز فروخت کردیئے۔
قطر کی حمایت کرنے والا خطہ کا سب سے طاقتور ملک ترکی ہے جہاں کے صدر طیب اردوان کی جڑیں ایک اسلام پسند سیاسی پارٹی میں اسی طر ح ہیں جیسی تحریکوں کی خطہ میں قطر حمایت کرتا ہے پابندیاں لگائے جانے کے چند روز کے اندر ترکی نے حمایت ظاہر کرنے لئے قطر میں اپنے اڈوں کے لئے قانون کے ذریعہ مزید فوج بھیج دی۔ وزیر دفاع فکری آئسک نے اڈہ بند کرنے کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے یہ دوحہ حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات میں مداخلت ہے ۔ ترکی شاید وہاں اپنی موجودگی اور بڑھائے گا۔قطر نے پچھلی دہائی میں اپنی وسیع دولت کا استعمال غیر ممالک پر اپنا اثرو رسوخ بڑھانے پر کیا ہے۔ اس نے پورے مشرق وسطی میں خانہ جنگیوں میں حصہ لینے والی تنظیموں اور بغاوت کرنے والوں کی حمایت کی ہے جس سے مصر کے موجودہ حکمران اور سعودی عرب چراغ پا ہوگئے۔کیونکہ اس نے قاہرہ میں اخوان المسلمین حکومت کی حمایت کی تھی جس کا 2013 میں فوج نے تختہ پلٹ دیا تھا۔ قطر کا سرکاری مدد والا الجزیرہ چینل مشرق وسطیٰ میں بے حد مقبول ہوگیا تھا جس س عرب حکومتیں مشتعل ہوگئی تھیں کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں میڈیا پر سختی سے کنٹرول رکھا ہوا تھا۔ الجزیرہ نے بند کئے جانے کے حکمر پر کہا ہے ’’یہ اور کچھ نہیں محض خطہ میں اظہار رائے کی آزادی کو خاموش کرانے کی کوشش ہے‘‘۔
مطالبات میں قطر سے کہا گیا ہے کہ وہ چاروں ملکوں کے گھریلو اور خارجہ امور میں مداخلت بند کرے اور ان کے شہریوں کو قطری شہریت دینے سے باز رہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ وہ اخوان المسلمین ، داعش، القاعدہ حزب اللہ اور شام میں القاعدہ کی شاخ ’’جبات فتح الشام‘‘سے تعلقات منقطع کرے اور قطر میں رہنے والے تمام دہشت گرد خودسپردگی کریں۔ قطر اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں یا وہ انہیں پناہ ددیتا ہے۔ اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو کم سطح پر لائے تجارتی روابط محدود کرے ایران کے پاسداران انقلاب کے ممبران کو ملک سے نکالے ۔ قطر ان کی موجودگی سے انکار کرتا ہے۔ پابندیاں لگانے والے ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ قطری پالیسوں کی وجہ سے انہیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں قطر ان کی تلافی کے لئے وہ تاوان ادا کرے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور غرفاش نے ٹوئیٹر پر کہا ہے اتنے سال تک سازشیں کرنے کی قیمت ادا کرنی ہوگی اپنے پڑوسیوں کے پاس واپس لوٹنے کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔