امت کو اتحاد پر مبنی نظریات کی اشد ضرورت ہے، آج بزرگ سنی عالم دین مرحوم شیخ عبدالناصر الجبری اور ان جیسے علماء، ان کے افکار اور جذبات، راہ و روش اور صداقت کی ضرورت ہے، آج ہمیں انتہاپسندی کا سامنا ہے جو کسی بھی دینی اور اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں ہے: سنیوں میں بھی اور شیعوں میں بھی۔
جاثیہ تجزیاتی سائٹ کے مطابق، تکفیری تفکرات سنہ 2000 سے پہلے اور 1990 کے عشرے میں بھی اور اس سے پہلے بھی پائے جاتے تھے۔ بعض ممالک میں یہ تفکرات محدود تھے اور بعض میں بہت وسیع؛ تاہم تکفیر کا سلسلہ آج کی طرح نمایاں نہیں تھا۔ تکفیری آج انٹرنیٹ پر بھی اور اپنے ابلاغی ذرائع میں بھی اور سیاسی اور سماجی میدانوں میں بھی کسی قید و بند اور کسی قانون اور ضابطے کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر اپنا موقف بیان کرتے ہیں، اور آج کے مسائل کو بہت آگے تک لے جاتے ہیں یہ روش بہت خطرناک ہے۔ آج وہ تکفیری جنگ میں صرف تکفیر (کافر قرار دینے) پر ہی نہیں رکتے، بلکہ ان کی تکفیر قتل و غارت، انسانوں کے سر قلم کرنے، سینے پھاڑ کر دل نکال کر چبانے اور لوٹ مار تک بھی سرایت کرجاتی ہے۔ یہ خطرناک ترین رجحان ہے جس کا امت اسلامی کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انگریزی تشیّع تکفیری فرقوں کا دوسرا رخ ہے
بدقسمتی سے بعض شیعہ کہلوانے والے حلقوں میں خاص قسم کے رجحانات پائے جاتے ہیں اور ان حلقوں کو امام خامنہ ای نے انگریزی تشیع کا نام دیا ہے۔ یہ حلقے بھی تکفیر، خیانت اور تمام مقدسات اور علامتوں کی توہین کو اپنے ایجنڈے میں سموئے ہوئے ہیں؛ وہ نہ صرف ہمارے سنی برادران کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں بلکہ شیعہ مقدسات اور علائم کی بھی توہین کرتے ہیں۔ علماء اور مراجع تقلید کی بھی توہین کرتے ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیعہ اور سنی کہلوانے والے ان تکفیری رجحانات کے فروغ کے لئے تمام عربی، اسرائیل اور مغربی وسائل سے تقویت پہنچائی جارہی ہے؛ غلو اور زیادہ روی کو بھی تقویت دی جاتی ہے اور تکفیر کو بھی طاقتور بنایا جارہا ہے۔
تمام تر مغربی اور وہابی ذرائع ابلاغ نے تکفیر، غلو، انتہاپسندی، توہین، تہمت اور قتل و غارت کو کوریج دے رہے ہیں۔ اسلامی مزاحمت محاذ کے چینلوں کو عرب سیٹ اور نیل سیٹ نامی سیٹلائٹس سے حذف کیا جاتا ہے لیکن دنیا جہاں کے تمام دروازے وصال، صفا، فدک وغیرہ جیسے فتنہ انگیز چینلوں کے لئے کھلے ہیں۔
امت مسلمہ کا اختلاف مغربی جاسوسی اداروں کا مشترکہ ایجنڈا
میری بہنو، بھائیو اور اے علماء حضرات! یہ جو کچھ رونما ہورہا ہے، حادثاتی نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک اور ان کے جاسوسی ادارے اور مطالعاتی ادارے شب و روز سرگرم عمل ہیں اور منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ اسلامی بیداری رونما ہوچکی ہے، امت مسلمہ اور مسلم اقوام بیدار ہوچکی ہیں اور اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، اور آج مسلم ممالک اور علاقے میں امریکہ کی توسیع پسندی کے مقابلے میں امت مسلمہ کا موقف واضح اور فیصلہ کن ہے۔
دشمنان اسلام نے جعلی اسرائیلی ریاست کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت تحریک کی کامیابیوں کو دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ امت کے درمیان اختلاف ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس عوامی اٹھان کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے سوا اس کے کہ امت میں اختلاف و انتشار پیدا کیا جائے اور مغربی استکباری منصوبے کے لئے اس سے بہتر کوئی بھی چیز نہیں ہے کہ اسرائیل اور اسکتبار کے خلاف امت کی اس جنگ کے میدان کو ہی تبدیل کیا جائے اور تکفیر اور غلو کو میدان میں لاکر مختلف اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کیا جائے۔ ہمیں آج تمام سابقہ ادوار سے زیادہ، بزرگ سنی عالم دین شیخ عبدالناصر الجبری کی طرح اپنی ذمہ داریاں قبول کرنا چاہئیں۔ ہمیں ایک طرف سے ان افراد کو [اپنے معاشروں کے اندر ہی] گھیر لینا چاہئے اور انہیں خاموش کرنا چاہئے اور دوسری طرف سے تعاون، اخوت، برادری اور اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لئے اقدام کرنا چاہئے؛ کیونکہ تکفیریوں اور انتہاپسندوں [غالیوں] اور ان کے امریکی اور یہودی آقاؤں کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمارے درمیان جدائی اور اختلاف ہو، ہم ایک دوسرے سے دور ہوجائیں، اور ہر کوئی اپنے راستے پر چلے۔ جبکہ ہمارا اصرار ہے کہ شیعہ اور سنی آپس میں دیدار اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں، اشتراک عمل کے ساتھ کام کریں، اسلامی مزاحمت کے سیاسی دائروں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں؛ اور اگر ایسا کریں تو کامیابی شیعہ اور سنی مسلمانوں کے قدم چومے گی اور دشمنوں کے منصوبے ناکام ہوجائیں گے۔
انگریزی شیعہ وہابیت اور صہیونیت سے بھی زیادہ خطرناک
وہابیت یہودیوں سے زیادہ تشدد پسند اور سنگدل ہے، اس کی پالیسی یہ ہے کہ جو بھی اس کے قواعد سے اختلاف کرے اسے منظر عام سے ہی ہٹا دے۔ اور جو کچھ بھی اسلام سے تعلق رکھتا ہے یا اس کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے، اسے نیست و نابود کردے۔ یہ منصوبہ 2011 سے جاری ہے اور یہ نہ شیعہ سے تعلق رکھتا ہے نہ ہی سنی سے۔ اور اس منصوبے کے سلسلے میں جاسوسی اداروں کا کردار بہت اہم ہے، ہمیں اس خطرے کو فرصت میں بدل دینا چاہئے؛ اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اس خطرے کو وہابیت کا محاصرہ کرنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے فرصت میں تبدیل کرنا چاہئے۔
[دوسری طرف سے] انگریزی تشیع سے منسلک فرقہ وہابیت اور صہیونیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور جو لوگ سیٹلائٹ چینلز پر مذہب کی زبان بولتے ہیں، وہ جاسوسی اداروں کے کٹھ پتلی ہیں جن کا اصل مقصد مذہب کو تباہ کرنا ہے اور جو بھی ان جیسوں کی تائید کرے وہ کرائے کا بزدل ایجنٹ ہے اور جو بھی ان کی گمراہی کے آگے خاموشی اختیار کرے وہ سازشی عناصر میں شامل ہے۔