آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے کہا: قتنہ گروں کا اصل نشانہ اسلام کے اصول ہیں، مہنگائی اور معاشی مسائل نہیں، وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تھے اور اگر انہیں سونا بھی دیا جائے، چونکہ دین کے خلاف ہیں، وہ کسی چیز سے راضی نہیں ہوتے۔
مرجع تقلید شیعیان، آیت اللہ العظمی جوادی آملی نےایران میں حالیہ فتنے کی مذمت کی غرض سے ملاقات کے لئے آنے والے قم کے انقلاب طلبہ اور فضلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
مختصر اور جامع رپورٹ جو پیش کی گئی امیدافزا تھی، خداوند متعال اور رسول اللہ(ص) نے فرمایا: دشمن ہر وقت سازشیں اور منصوبے بناتے ہیں، دشمن کبھی خاموش نہیں ہؤا اور خاموش نہیں ہوگا اور اپنا کام ترک نہیں کرتا اور ہر روز نئی سازش تیار کرتا ہے۔
خداوند متعال نے ان یاددہانیوں کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کو بیدارباش دیتا ہے اور ہوشیار کردیتا ہے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے مصری عوام کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں: اچھے قائد کا ہونا قضیئے کا ایک رخ ہے اور اگر کہو کہ ہمارے امام علی ہیں اور پھر میدان چھوڑ دو تم تمہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عوام کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ بیدار رہے اور بجائے اس کہ کہہ دیں کہ "ہم ایک اچھا رہبر رکھتے ہیں: کہہ دیں کہ "کہ ہمیں کرنا کیا چاہئے"، جس وقت عسکری قوتیں مورچوں میں پاسداری کرتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ایک لمحے کے لئے نیند ان پر غلبہ کرے، لیکن وہ یہاں نیند کو صرف چکھ لیتے ہیں اور خیال رکھتے ہیں کہ کہیں نیند انہیں آ نہ لے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ نیید کو صرف چکھ لیں۔
ممکن ہے کہ معاشرہ دو تین دن تک غفلت کرے، لیکن مسلسل غفلت ناقابل بخشش ہے، فتنہ گر اسلام اور قرآن کے مخالف تھے اور اگر انہیں سونا بھی دیا جائے، چونکہ ان کا مسئلہ دین کے ساتھ ہے، کسی بھی چیز کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، جن افراد نے یہ اقدامات کئے ہیں، وہ غرباء اور مستضعفین میں سے نہیں ہیں۔
دشمن کی سوچ بچار اور منصوبہ سازی کے مراکز کی شناخت ضروری ہے، اور یہ جاننا کہ یہ سوچ کہاں سے آرہی ہے، مخالف محاذ پر قریب سے نگرانی کرنے کی ضرورت ہے اور دیکھنا چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل ان مسائل میں کیا موقف اپناتے ہیں، وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے حتی کہ اس ملک کو زنجیروں میں جکڑ لیں، عالمی جنگ میں انھوں نے 70لاکھ انسانوں کا قتل عام کیا لیکن پھر بھی ان کا پیٹ نہيں بھرا۔
امریکیوں کی نہ کوئی جڑ ہے اور نہ ہی کوئی بنیاد، وہ بدتہذیب وحشی ہیں، اس ملک کے عوام ہیں جو حقیقی ہیں اور ان کی جڑیں اپنی مٹی میں پیوست ہیں۔
سائبر میڈیا اور سائبر اسپیس بلاشبہ حقیقی دنیا ہے، ہمارے پاس ایسی فضا کیوں نہیں ہے؟ ہمارے ملک کو کیوں مرجفون (خوفناک اور جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں) کا سامنا ہے؟
اگر مرجفون باز نہ آئیں تو خداوند متعال انہیں خود ہی اپنی جگہ بیٹھا دیتا ہے۔ "رجفہ" یعنی زلزلہ، اور اراجیف یعنی لرزنے والا اور لرزانے والا، اگر خبریں اراجیف ہوں اور انسان کو مسلسل لرزہ بر اندام کریں، تو انسان مسلسل خطرے میں ہے اور یہ اراجیف ان کے لئے چین اور سکون کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔
سائبر اسپیس ہمارے ہاتھ میں کیوں نہ ہو کہ ہم صحیح خبریں شائع کریں؟
دشمن کا ہمارے تین اور ہماری معیشت سے کوئی سروکار نہیں ہے اس کا جھگڑا تو ہمارے اسلام اور ہمارے دین سے ہے۔ ان کے لئے مہنگائی یا ارزانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ وہ تو کچھ اور چاہتے ہیں۔
ہمیں اپنے دین کو خوب سمجھنا چاہئے، دین کو باور کرنا چاہئے اور اس کے احیاء کے لئے کام کرنا چاہئے۔