اس حوالے سے عراق میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے نمائندہ برونو گیڈو نے کہا کہ داعش موصل کے باہر ہونے والی جھڑپوں میں شہریوں کو گرفتار کر کے انہیں موصل کے قدیم شہر جانے پر مجبور کر رہی ہے جو ان کے قبضے میں موجود واحد حصہ رہ گیا ہے۔
جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ موصل کے قدیم شہر میں اب بھی 1 لاکھ سے زائد شہری قید ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ شکست کے بعد داعش جن جن علاقوں سے نکلی وہاں سے اس نے شہریوں کو اپنے ساتھ لے کر موصل منتقل کر دیا۔نمائندہ اقوام متحدہ کے مطابق یہ شہری وہاں انسانی ڈھال کی صورت میں موجود ہیں علاقے میں کھانا، پانی، بجلی کچھ باقی نہیں رہا، یہ افراد ایک ایسے علاقے میں موجود ہیں جہاں دہشت اور مفلسی کی صورتحال بدترین ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ چاروں جانب جنگ سے گھرے ہوئے ہیں۔برونو گیڈو کانے کہا کہ داعش کے کنٹرول میں موجود علاقے سے نکلنے کی کوشش کرنے والے افراد کو اسنائپرز قتل کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جبکہ جو چند افراد نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ شدید صدمے اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ 9 ماہ قبل موصل سے داعش کا قبضہ ختم کرنے کے لیے شروع ہونے والی کارروائیوں میں شہر سے 8 لاکھ 62 ہزار سے زائد افراد دربدر ہو چکے ہیں۔ان افراد میں سے صرف 1 لاکھ 95 ہزار افراد پرامن علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے، جبکہ 6 لاکھ 67 ہزار کے قریب افراد اب بھی دربدر ہیں۔ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق موصل کے مغربی علاقوں سے ہے،یہ افراد اقوام متحدہ کی جانب سے لگائے گئے کیمپوں اور میزبان خاندانوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔