سید حسن نصراللہ نے سعد حریری کے استعفیٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "حریری نے اپنی مرضی سے استعفیٰ نہیں دیا ہے بلکہ انہیں آل سعود نے استعفی دینے پر مجبور کرایا ہے۔"
سید حسن نے کہا کہ حریری کے استعفیٰ کی خبر العربیہ نیوز چینل نے دی جبکہ سعد حریری ایک کاغذ سے لکھا ہوا متن پڑھ رہے تھے اور بالکل لبنانی لب و لہجے سے عاری تھے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ استعفیٰ کا متن بھی آل سعود نے ہی لکھ کردیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہے کہ حریری کے ریاض جانے کے بعد کیا واقعہ پیش آیا ہے لیکن علائم اور قرائن سے واضح ہوجاتا ہے کہ آل سعود نے انہیں استعفی دینے پر مجبور کرایا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے سعد حریری کے سعودی عرب میں جاکر استعفیٰ دینے کو سعودی عرب کی لبنان کے امور میں وسیع مداخلت کا واضح ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ لبنانی عوام، حکومت اور لبنان کے کسی بھی شخص کو حریری کے استعفیٰ کی اصلی حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے۔ سعد حریری کے استعفیٰ کی علت سعودی عرب میں ہی تلاش کرنی چاہیے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہمارا تعاون مستعفی وزیر اعظم کے ساتھ جاری تھا۔ وزیر اعظم سعد حریری جب سعودی عرب کے اس سے قبل دورے سے وطن واپس آئے تو وہ اس دورے سے خوش تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب مدد کے لئے تیار ہیں اور وہ لبنان کی حکومت جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں لیکن دوسرے دورے کے دوران معلوم نہیں کیا ہوا کہ سعد حریری نے سعودی عرب میں ہی استعفیٰ پیش کردیا۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ سعد حریری نے سعودی عرب کے شدید دباؤ میں آکر استعفیٰ پیش کیا ہے کیونکہ سعودی عرب کے لبنان میں کچھ اہداف ہیں جن کو سعد حریری پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہے جس کے بعد آل سعود نے ان سے مستعفی ہونے کے لئے دباؤ ڈالا اور انہوں نے بھی سعودی عرب میں ہی استعفیٰ پیش کردیا اور جو کچھ سعودی عرب اس سے کہلوانا چاہتا تھا وہ سعد حریری نے کہہ دیا۔
حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ سعد حریری کا استعفیٰ نہیں چاہتی تھی، ہم چاہتے تھے کہ وہ اپنی حکومت کی مدت پوری کرے اور اگلے پارلیمانی انتخابات تک یہ تسلسل جاری رہے۔
سید حسن نے کہا: "بہتر ہوتا کہ سعد حریری اپنے ہی ملک میں آکر صدر اور وزراء کے سامنے استعفیٰ پیش کرتے، سعودیوں کو چاہئے تھا کہ وہ انہیں لبنان آنے کی اجازت دیتے، ریاض سے ہی استعفیٰ پیش کرنے پر مجبور کرکے لبنان کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کا واضح ثبوت پیش کیا ہے اور لبنان کے وزیر اعظم کا سعودی عرب میں مستعفی ہونا لبنانی عوام اور حکومت کی شان کے خلاف ہے۔
سید حسن نے مزید کہا: "استعفیٰ کے بیانیہ میں سرسخت الزام تراشی کی گئی جس کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ سارے الزامات حریری کے نہیں بلکہ آل سعود کی جانب سے لگائے گئے ہیں، اگر ان الزامات کے بارے میں بحث کریں بھی تو ہمارے فریق سعودی حکام ہونگے نہ کہ حریری۔"
انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں کہ اس وقت حریری کہاں ہے؟ کیا وہ وطن واپس آئیں گے؟ یہ سوال کوئی غلط سوال نہیں ہے، کیونکہ آل سعود نے اپنے ہی بڑے بڑے صاحب نام شہزادوں کو جیل بھیج دیا ہے تو یہ پوچھنا غلط نہیں ہوگا کہ لبنانی حکومت کے سربراہ کہاں ہیں؟
انہوں نے مزید کہا: "اصل حقائق بہت جلد سامنے آجائیں گے، صبر و تحمل سے کام لیں، ہر قسم کے غلط تبلیغات پر کان نہ دھریں، میں لبنان میں ہر قسم کی امن و اخوت کی تاکید کرتا ہوں۔ حزب اللہ اس قسم کے حادثات سے نہیں گھبراتی، ہم ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔"
سید حسن نے کہا کہ ہم ملک میں گزشتہ حالات کی واپسی نہیں چاہتے، سڑکوں اور گلیوں میں ہر قسم کے مذہبی، نسلی اور عقیدتی جلسے جلوس ملک کو کمزور کردیں گے اس لئے ہم پرامن رہنے کی اپیل کرتےہیں۔ سید حسن نے مزید کہا کہ کچھ تبصرے ایسے سامنے آرہے ہیں کہ حریری کا استعفی لبنان پر اسرائیلی حملے کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہے، ہم لبنان پر اسرائیل کے حملے کو مکمل طور پر نفی بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن میں لبنانیوں سے کہوں گا کہ اسرائیل کبھی سعودی عرب کے مفاد میں کام نہیں کرے گا بلکہ انہیں اپنے اور امریکی مفادات عزیز ہیں، اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ لبنان کے خلاف جنگ کا آغاز ان کے مفاد میں نہیں ہے، جب تک صہیونیوں کو یقین نہیں ہوگا کہ ہم میدان جنگ میں کامیاب ہونگے تب تک کوئی غلطی نہیں کریں گے، اسرائیل کے اندر لبنان کے خلاف کسی بھی محاذ آرائی سے خبردار کیا گیا ہے کیونکہ ایسی صورت میں اسرائیل کو سخت جواب ملے گا۔