یورینیم کی 20 فیصد افزودگی ایرانی نوجوانوں کی صلاحیت کی مثال ہے: آیت اللہ خامنہ ای
3194
M.U.H
11/06/2018
تہران، 11 جون- ایرانی سپریم لیڈر نے فرمایا ہے کہ یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کا عمل ہمارے نوجوانوں اور ماہرین کی اعلی اور مثالی کارکردگی کا نتیجہ ہے اور انہوں ںے ثابت کردیا کہ اس شعبے میں ایران کو امریکہ، روس یا فرانسیسی یورینیم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بات قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی 'سید علی خامنہ ای' نے ایران کی مختلف جامعات کے اساتذہ اور سائنسی مراکز اور فیکلٹی کے اراکین کے ساتھ ایک ملاقات میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ ایران کے نوجوان سائنسدان اور ماہرین نے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کرکے دنیا کو اپنی بے مثال صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔
انہوں ںے فرمایا کہ ایک ایسا بھی دور تھا جب یورینیم کی 20 فیصد افزودگی اور خریداری کے لئے ایران پر شرائط رکھی جاتی تھیں مگر ہمارے نوجوانوں کی جد و جہد اور ان کی مزاحمت کی بدولت آج ایران یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے لئے کسی ملک پر انحصار نہیں کرتا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ ملکی مسائل اور مشکلات کو موثر حکمت عملی اور منطقی اقدامات کے ذریعے حل کرنا چاہئے اور اس مقصد کے لئے جامعات، سائنسی مراکز اور سائنسدانوں کی خدمات لینا ناگزیر ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ ملک میں اچھی یونیورسٹی ملک چلانے کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ جامعات ملک میں ماہرین اور سائنسداوں کی تربیت کے لئے ایک اہم مرکز مانا جاتا ہے۔
خطے اور دنیا کی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم لیڈر نے کہا کہ آج خطے کے مغرور اور جابر حکمرانوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن زیادہ ہیں اور دوسری جانب مختلف اقوام اور ممالک کے مقابلے میں ایران کی عزت اور بالادستی زیادہ ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ ایران کے اثر رسوخ اور کردار کو دکھ کر دشمن وطن عزیز کے خلاف شیطانی سازشوں میں مصروف ہے تاہم اللہ کے فضل سے دشمن کو ایرانی قوم اور حکومت کے سامنے شکست کے سوا کچھ نہیں ملا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے صہیونی وزیراعظم جس کے ہاتھ مظلوم فلسطینی بچوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، کے حالیہ دورہ یورپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ قاتل صہیونی وزیراعظم یورپ جاکر مگر مچھ کے آنسو رویا۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ فلسطین کی تاریخی سرزمین میں حکومت کے قیام کا طریقہ وہی ہونا چاہئے جسے پوری دنیا تسلیم کرے اور وہ یہ کہ حکومتی نظام میں مسلم، عیسائی اور یہودی کو شامل ہونا چاہئے جو اس سرزمین کی 80 فیصد کی آبادی ہے. لہذا اس حوالے سے مقبوضہ فلسطین کے اندرو ہو یا باہر ریفرنڈم ہونا چاہئے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ فلسطین سے متعلق ایران کی یہ پیشکش اقوام متحدہ میں رجسٹرد ہے تو کیا یہ عالمی معیار کے مطابق نہیں؟ تو کیوں یورپ اس مسئلے کو جاننے کی کوشش نہیں کرتا؟