ایران کے خلاف زبردستی کرنے کی کوشش کا نتیجہ برعکس ہوگا: موسویان
2660
M.U.H
03/05/2018
سابق ایرانی جوہری مذاکرات کار اور امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے سے متعلق مغرب کی جانب سے ایران کے خلاف زبردستی اور دباؤ کا نتیجہ برعکس ہوگا۔
یہ بات 'حسین موسویان' نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی حکمران 1992 سے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ایران جوہری ھتھیار بنارہا ہے جس کا مقصد اسرائیل کے پاس موجود سینکڑوں مہلک ھتھیاروں پر عالمی توجہ کو ہٹانا تھا۔
نامور ایرانی سفارتکار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے 10 دنوں تک ایران جوہری معاہدے پر نئے سرے سے فیصلہ کرنا ہے جبکہ نیتن یاہو نے یہ کوشش کی ہے کہ اسی 10 دن کے اندر امریکی صدر کے ممکنہ فیصلے پر اثرانداز ہو تا کہ وہ ایسی جھوٹی کہانہوں کی بنا پر ایران جوہری معاہدے کو ختم کروادے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی جوہری ادارے نے بارہا ایران کی شفاف کارکردگی کی تصدیق کی ہے تاہم نیتن یاہو کی حالیہ کوشش کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کو جوہری معاہدے سے نکلنے کی جانب راغب کرنا تھا۔
سید حسین موسویان نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان ماضی کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ بات سامنے آئے گی کہ ایران نے ہرگز امریکہ دباو کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ ایرانی قیادت مغرب اور امریکی دباؤ کی پالیسی کا سامنا کرنے کے لئے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ 12 مئی کو جوہری معاہدے سے نکل کر ایران پر حاوی ہوگا تو وہ غلطی کا شکار ہیں. ایران کے یورپ اور مشرقی بلاک کے ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات
ہیں. ایرانی صدر کے حالیہ بھارت، روس اور ترکی کے دورے بھی نہایت اہمیت کے حامل تھے لہذا ٹرمپ ایران کو تنہا کرنے کی سوچ سے نکلیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی جوہری ادارے نے بارہا ایران کی شفاف کارکردگی کی تصدیق کی ہے اور کہا تھا کہ ایران نے جوہری معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ 12 مئی تک ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی دوبارہ توثیق نہیں کرتے تو پھر ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ لاگو ہو جائیں گی۔
صدر ٹرمپ نے 12 مئی کی تاریخ اس لئے مقرر کی ہے تا کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ بقول اُن کے جوہرے معاہدے میں موجود خرابیوں کو دور کر لیں۔
دریں اثناء اعلی ایرانی قیادت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ علیحدگی پر بھرپور ردعمل دیا جائے جس میں ایران کی بھی جوہری معاہدے سے علیحدگی اور این پی ٹی معاہدے سے نکلنا شامل ہیں۔