پچاس سے زائد مسلم ممالک نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مشرقی یروشلم کو فلسطین کی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔
یہاں 50 سے زائد مسلم ممالک کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرنے والے ترکی کے صدر طیب ارضگان نے کانفرنس میں کہا کہ امریکہ کے قدم کے بعد واشنگٹن نے اسرائیل۔ فلسطینی جدوجہد کو ختم کرنے کی کوششوں میں ثالث کے طور پر اپنے کردار کو بھی ختم کر دیا۔
مسٹر ارضگان نے اسلامک کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے آخر میں کہا ’’اب سےجانبدار امریکہ کے لئے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ثالث ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘‘۔ انہوں نے اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی بھی وکالت کی۔
مسلم ممالک کے آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن گروپ (او آئی سی) نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی ماننے کا امریکہ کا فیصلہ غلط ہے۔ او آئی سی کے مطابق امریکہ کے اس فیصلے سےاشارہ ملتا ہے کہ اس نے اب مشرق وسطی کی امن مذاکرات سے ہاتھ پیچھے کھینچ لئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی میں شامل 57 ممالک کے لئے امریکہ کا یکطرفہ فیصلہ’’قانونی طور پر غلط‘‘ہے اور اسے فلسطینی لوگوں کے حقوق پر ’’حملہ‘‘سمجھا جانا چاہئے۔
قبل ازیں فلسطینی صدر محمود عباس بھی کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کو اس معاملے میں آگے آنا چاہئے۔ او آئی سی کی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے کہا ’’امریکہ اسرائیل کی طرفداری کرتاہے لہذا اس معاملے میں اس کی ثالثی کو قبول نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مطابق ان کا فیصلہ حقیقت کو قبول کرنے کی ایک کوشش بھر تھی۔ اس کا مقصد امن معاہدے میں کسی کی حمایت کرنا نہیں تھا۔ .یروشلم پر چل رہی اس رسہ کشی کے معاملے میں اسرائیل اور فلسطینی علاقے کا تنازعہ ہے۔ یروشلم خاص طور پر مشرقی یروشلم یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کا مقدس مذہبی مقام ہے۔ پہلے یہ علاقے اردن کے پاس تھا لیکن 1967 میں ہوئی مشرق وسطی کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ تب سے اسرائیل پورے یروشلم پر متحدہ راجدھانی ہونے کا دعوی کرتا رہا ہے۔
دوسرے فلسطینی رہنماؤں کا دعوی ہے کہ مشرقی یروشلم ممکنہ متحدہ فلسطین کا دارالحکومت ہوگا اور اس پر کوئی بھی فیصلہ امن مذاکرات کے بعد کے مراحل میں کیا جانا چاہئے۔
یروشلم پر اگرچہ اسرائیلی حاکمیت کو کبھی بین الاقوامی برادری کی رضامندی نہیں ملی اس لئے آج بھی تمام ممالک نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں ہی رکھے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائیں گے۔