فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور تحریک فتح نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کی مذمت کی ہے کہ بیت المقدس کے مسئلے کو مذاکرات کی میز سے ہٹا دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اپنی تجویز پیش اور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے اپنے فیصلے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کا مسئلہ کلی طور پر اب ہم نے مذاکرات کی میز سے ہٹا دیا ہے ۔ٹرمپ کے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حماس کے ترجمان سامی ابوزہری نے کہاکہ یہ بیان شرمناک اور خطرناک ہے ۔ حماس کے ترجمان نے کہاکہ فلسطینی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ ٹرمپ کے اس اقدام کےجواب میں صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہوجائے اور اسی طرح اسرائیل اور امریکا کے ساتھ اپنا سیکورٹی تعاون بھی منقطع کردے ۔دوسری جانب فلسطین کی تحریک فتح نے بھی کہا ہے کہ جب تک بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک مسئلہ فلسطین کا کوئی بھی حل نہیں نکل سکے گا چاہے یہ تنازعہ قیامت تک ہی کیوں نہ جاری رہے ۔فتح نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل بین الاقوامی قرارداوں پر عمل کرنا ہے ۔پی ایل او نے بھی بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کو بیہودہ قراردیا ہے ۔تنظیم آزادی فلسطین پی ایل او کی عاملہ کمیٹی کے رکن اور اس تنطیم کے انسانی حقوق کے امور کے سربراہ احمد تمیمی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ بیان کہ بیت المقدس کا معاملہ اب مذاکرات کی میز سے ہٹ چکا ہے غاصب صیہونی حکومت کی اندھی حمایت میں وائٹ ہاؤس کی گذشتہ پالیسیوں کا ہی حصہ ہے - انہوں نے کہا کہ یہ بیان سینچری ڈیل کے نفاذ کے بارے میں امریکا کی خام خیالی کو بھی ظاہر کرتاہے ۔واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جب سے اقتدار میںآئے ہیں انہوں نے اپنے اشتعال انگیز اقدامات کے ذریعے بین الاقوامی اور علاقائی بحرانوں منجملہ مشرق وسطی کے بحران کو ہوا دی ہے ۔اس درمیان فلسطین کا بحران بھی نہ صرف یہ کہ اس سے مستثنی نہیں رہا بلکہ امریکا نے بیت المقدس کے مسئلے کو اٹھاکر مسئلہ فلسطین کو اپنی سازشی پالیسیوں کا مرکز بنادیا ہے۔