اقوام متحدہ نے ایک بار پھر سعودی جارحیت کے شکار ملک یمن میں قحط اور بھوک جیسے المیے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یمن کا محاصرہ فوری طور پر ختم کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل مارک لوکاک نے یمن میں قحط اور بھوک کے بارے میں سخت خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تقریبا اسی لاکھ افراد کو فوری غذائی امداد کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یمن کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے اس ملک کا زمینی، فضائی اور سمندری محاصرہ فوری اور مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یمن کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں تقریبا دو کروڑ لوگوں کو انسانی امداد فراہم کئے جانے کی ضرورت ہے۔سعودی عرب نے امریکہ اور بعض عرب اور مغربی ملکوں کی ایما پر، مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
تقریبا تین سال سے جاری جارحیت کے نتیجے میں تیرہ ہزار یمنی شہری شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے باعث لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
سعودی جارحیت اور محاصرے کے نتیجے میں یمن میں غذائی اشیا اور دواؤں کی بھی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور ہیضے سمیت متعدد وبائی امراض نے اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔دوسری جانب برطانوی حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کوربن نے وزیراعظم تھریسا مئے کی حکومت کو یمنی عوام کے خلاف سعودی عرب کے مجرمانہ اقدامات میں برابر کا شریک قرار دیا ہے۔
جیرمی کوربن نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ وزیراعظم تھریسامئے نے حالیہ دورہ ریاض میں یمن کے محاصرے پر خاموشی اختیار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ برطانیہ بھی سعودی عرب کے مجرمانہ اقدامات میں برابر کا شریک ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب، یمن کا محاصرہ ختم کرے جبکہ حکومت برطانیہ کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کو اسلحہ کی سپلائی فوری طور پر بند کر دے۔قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مئے نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران، رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی غرض سے یمن کا محاصرہ نرم کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی بند کرنے سے انکار کر دیا تھا۔