سال 2018 کے پہلے ہفتہ میں شام کے مشرقی غوطہ میں ہونے والے تشدد میں 30 سے زائد بچوں کی موت ہو گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں 2013 سے اب تک دو لاکھ بچے تشدد زدہ علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔مغربی ایشیائی ممالک کے اقوام متحدہ بین الاقوامی چائلڈ فنڈ کے افسر نے یہ اطلاع دی۔
شام میں یونیسیف کے نمائندہ فرائن اكویزا نے اپنے بیان میں کہا "نئے سال کے موقع پر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں ، ایسے وقت میں شام میں والدین اپنے بچوں کی موت کے سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا’’یہ انتہائی شرمناک ہے کہ لڑائی کے تقریبا سات سال بعد بھی بچے جنگ میں جانیں گنوا رہے ہیں اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی اسے دیکھ رہی ہے۔ شام میں اور پڑوسی ممالک میں لاکھوں بچے تشدد کی مار جھیل رہے ہیں‘‘۔
یونیسیف کو مشرقی غوطہ سے اطلاع ملی ہے کہ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے زیر زمین دوز بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ہوئے تشدد کے دوران مشرقی غوطہ کے دو طبی مراکز پر حملہ ہوا۔ تشدد کی وجہ سے یہاں زیادہ تر طبی مراکز بند پڑے ہیں۔ مشرقی غوطہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں اسکولوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے جبکہ شام میں دیگر حصوں کے اسکولوں کے بچے ششماہی امتحان دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا’’ ہمیں شام میں ضرورتمند بچوں کو فوری طور پر بغیر کسی روک ٹوک کے انسانی امداد پهچاني ہوگی۔ جنگ میں شامل متحارب گروپ ایسا کر سکتے ہیں اگر وہ حقوق انسانی کے کارکنوں کو یہاں بچوں کی زندگیاں بچانے کی اجازت دیں۔