بیروت: لبنان میں تعینات روس کے سفیر 'الیگزینڈر زاسپکن' نے کہا ہے کہ حزب اللہ دہشتگرد تنظیم نہیں بلکہ وہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ کررہی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران ہمارا اہم شراکت دار ملک ہے اور خطے میں سعودی عرب کی پالیسی متضاد اور مبہم ہے۔
روسی سفیر 'الیگزینڈر زاسپکن' نے شام کے خلاف حالیہ صہیونی فضائی جارحیت کے حوالے سے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے زیادہ اطلاعات نہیں اور ہم اس واقعے کو اسرائیل کے روس کو پیغام کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، شام پر صہیونی حملوں کا مسئلہ روس کی شام آمد سے پہلے کا ہے اور اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں روسی مقاصد واضح ہیں اور دہشتگردوں کے خلاف جنگ روسی فورسز کی پہلی ترجیح ہے۔
روسی سفیر نے بتایا کہ ماسکو اور تل ابیب نے فضائی مقابلے نہ ہونے پر اتفاق کیا ہے لہذا صہیونی فضائی بمباری کا تعلق روس سے نہیں بلکہ شام اور حزب اللہ سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی حملوں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ہم نے اسرائیل کو واضح کردیا ہے کہ ایک دوسرے کے درمیان کوئی فضائی مقابلہ نہیں ہونا چاہئے، لہذا ہمارا مؤقف واضح ہے ہماری پہلی ترجیح دہشتگردی کے خلاف جنگ اور شامی سرزمین کو دہشتگردوں سے پاک کرنا ہے۔
روسی سفیر نے اس سوال پر کہ کیا اسرائیل نے روس سے جنوبی شام میں حزب اللہ اور شامی فوج کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے ضمانت حاصل کی ہے، تو انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ اسرائیل کو شامی فوج کی پیشقدمی پر تشویش ہے بلکہ وہ ایران اور حزب اللہ کی بات کررہا ہے۔
انہوں نے شامی علاقے گولان میں شامی فوج کی موجودگی پر اسرائیل کے عدم اعتراض کے نظریے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ایران اور حزب اللہ سے تشویش ہے مگر ہم شام سے تمام دہشتگرد اور مسلح عناصر کو نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے تمام ان فریقین سے تعاون کریں گے جو انسداد دہشتگردی کے عمل میں شریک ہیں۔
الیگزینڈر زاسپکن نے مزید کہا کہ اسرائیل، شام میں ہونے والی تبدیلوں سے خوش نظر نہیں آرہا مگر ہمیں اسرائیل کی جانب سے کوئی نئی جنگ شروع کئے جانے کے حوالے سے بھی کوئی علم نہیں مگر میں ذاتی طور میں نہیں سمجھتا کہ وہ موجودہ صورتحال میں کوئی نئی جنگ چھیڑ سکے اور ایسی صورتحال سامنے آنے کی کوئی وجوہات بھی نظر نہیں آرہی۔
انہوں نے کہا کہ روس ہرگز لبنانی تنظیم حزب اللہ کو دہشتگرد گروپ نہیں سمجھتا اور ہم اس حوالے سے مغربی رویے کو بھی درست نہیں سمجھتے. شامی فوج بالخصوص حزب اللہ داعش اور النصرہ فرنٹ کے دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی ہیں. یہ ہمارا اصلی مؤقف ہے جس کا اعلان بارہا مختلف عالمی فومرز میں کرچکے ہیں۔
انہوں نے شامی علاقے دیرالزور کی آزادی جس کو روس صدر نے شاندار فتح قرار دیا، کے بعد آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے بتایا کہ سیاسی حوالے سے ہم تمام مذاکرات عمل کی بحالی بالخصوص جنیوا عمل کی حمایت کرتے ہیں، زمینی حقائق کے بارے میں سب سے پہلے حلب میں فائربندی کے لئے امریکہ کے ساتھ معاہدہ طے پایا گیا مگر اوباما دور میں امریکیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے بعد روس نے ایران اور ترکی کے ساتھ تعاون کے عمل کا آغاز کیا جس سے مثبت نتائج برآمد ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ روس، ایران اور ترکی کے سہ فریقی تعاون کے ذریعے آستانہ عمل کی سنگ بنیاد رکھی گئی جس کے بعد شام کے چار علاقوں میں امن زون کے قیام پر اتفاق کیا گیا. اب تک تین علاقوں میں امن زون کا قیام عمل میں لیا گیا اور اس وقت شامی علاقے ادلیب میں امن زون کے قیام کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
روسی سفیر نے کہا کہ شام میں امن زون کے قیام کا مقصد صرف سیکورٹی اور امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا ہے اور اس سارے عمل کا کوئی سیاسی مقصد نہیں لہذا یہ کہنا کہ امن زون کے قیام سے شام کو تقسیم کیا جائے گا یہ بات بالکل غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی کوششوں کے لئے سب سے پہلے تمام شامی فریقین کے درمیان قومی امن مذاکرات کا آغاز کرنا ہوگا مگر یہاں ایک بات دہرائی جارہی ہے کہ ایسے مذاکرات کے انعقاد کی پہلی شرط شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنا ہوگا مگر ہم سمجتھے ہیں ایسی شرائط لگانے کا اصل مقصد امن مذاکرات کو متاثر کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ جنیوا میں شامی فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے اور جلد اس حوالے سے مثبت پیشرفت بھی سامنے آئے۔روسی سفیر نے لبنان اور شام کے حوالے سے سعودی عرب کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کرنا روسی پالیسی کا اہم جز ہے، ہم شام کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ بعض اختلافات کے باوجود اس کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھتے ہیں بالخصوص ترکی کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں جس کا مقصد مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم تعلقات منقطع کرنے نہیں بلکہ تعاون اور شراکت داری کے خواہاں ہیں، روس اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات ہیں اور ہم خلیج فارس کے تمام ممالک کے ساتھ قریبی تعاون کے خواہاں ہیں۔روسی سفیر نے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی ممکنہ بحالی کے حوالے سے بتایا کہ اس حوالے سے کچھ پیشرفت منظر عام پر آرہی ہے مگر بعض سعودی حکام بالخصوص وزیرکارجہ عادل الجبیر کے حالیہ بیانات اس پیشرفت کے ساتھ کھلی تضاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض سعودی حکام کی جانب لبنانی قوم سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ حزب اللہ اور سعودی عرب میں سے کسی ایک کو چن لے. کیا سعودی حکام ایسے بیانات سے لبنانی قوم کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ روسی سفیر نے امریکہ اور روس کے تعلقات میں کی حالیہ کشیدگی اور اس کے شام کے مسئلے پر تاثرات کے حوالے سے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ صورتحال بہتر ہوجائے گی اور آپس کی اختلافات سے شام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ شام میں عسکری مراکز قائم کرے جبکہ ہمارا مؤقف واضح ہے اور وہ یہ کہ شام میں امریکی سرگرمیاں چاہئے وہ دہشتگردوں کے خلاف کیوں نہ ہوں، شامی حکومت کی اجازت کے بغیر غیرقانونی ہیں۔روسی سفیر نے مزید کہا کہ امریکی جنگی طیاروں نے متعدد بار سولین پر بمباری کرکے سنگین جرائم کے مرتکب ہوگئے جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔
روسی سے امریکہ کے ایران مخالف بیانات اور اس حوالے سے روسی مؤقف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ روس، ایران کو اپنا بہت قریبی شراکت دار سمجھتا ہے اور دونوں ممالک انسداد دہشتگردی کے حوالے سے اہم تعاون کررہے ہیں اور ہماری نظر میں ایران ،روس کا شانہ بشانہ دہشتگردی کے خلاف لڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران مخالف امریکہ اور صہیونیوں کے الزامات سے ہمیں الزام لگانے والے ممالک کے ذاتی مقاصد نظر آرہے ہیں اور نہ ہی یہ الزامات روس کے لئے قابل فہم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایران کو علاقائی امن و امان کو خراب کرنے والا ملک نہیں دیکھتے بلکہ خطی مسائل کو حل کرنے والا ملک سمجھتا ہے۔