مشہور مقولہ ہے کہ’’دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے‘‘ ادھر سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی بھی اظہر من الشمس ہے۔اسی مقولے کے تحت سعودی عرب نے امریکہ کے گہرے دوست اسرائیل کے ساتھ بھی پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں اور قطر و حماس کے ساتھ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کی حالیہ کشیدگی کی اہم وجہ بھی یہی بتائی جارہی ہے کہ قطر حماس کی اعلانیہ سپورٹ کر رہا ہے اور حماس ہی فلسطین میں اسرائیل کے ساتھ مزاحم ہے۔
ریاض کانفرنس سے قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے امریکی دورے میں ٹرمپ کے ساتھ یہ طے کر کے آئے تھے کہ سعودی عرب اب ایران کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے گا جس میں امریکہ اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گا،امریکہ نے اس شرط پر مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی کہ سعودی عرب اس جنگ میں اسرائیل کو بھی ساتھ ملائے گا جسے سعودی عرب نے بخوشی قبول کر لیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ریاض کانفرنس کے فورا ًبعد امریکی صدر کا طیارہ ریاض سے سیدھا تل ابیب لینڈ کرتا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاھو ٹویٹ کرتے ہیں کہ ’’ آج ریاض سے تل ابیب طیارے نے لینڈ کیا ہے،میری یہ تمنا ہے کہ جلد وہ دن آئے جب اسرائیلی وزیراعظم کا طیارہ بھی تل ابیب سے اٹھے اور ریاض جاکر اترے‘‘۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بیانات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سعودی عرب ایران کے مقابلے میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے،رواں برس ایک کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں سعودی عرب اور ایران ایک پیج پر آجائیں اور مل کر اس کے خلاف لڑیں؟ تو عادل الجبیر کا جواب بڑا واضح تھا،ان کا کہنا تھا کہ’’ہم دہشتگردی کے خلاف ایران سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خطے میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے سب سے بڑا معاون ایران ہی ہے‘‘پھر الجبیر نے بہت سی ایسی مثالیں بھی دیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے مطابق ایران یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اسی موقع پر اسرائیل سے متعلق سوال کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارا اسرائیل سے اختلاف عرب اسرائیل کشمکش کے خاتمے تک ہے،ہماری خواہش ہے کہ جلد یہ معاملہ حل ہو تاکہ خطے میں جاری کشمکش کا خاتمہ ہو۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عرب اور اسرائیل اپنے مشترکہ دشمن ایران کے خلاف اتحاد کر سکتے ہیں؟ تو عادل الجبیر کا جواب تھا کہ ’’خطے میں بدامنی کے پیچھے ایران ہے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایران اپنے آپ کو بدلے تاکہ وہ دنیا سے الگ تھلگ نہ ہو جائے،اگر ایران اپنے رویے پر نظر ثانی نہیں کرتا تو پھر ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچتا‘‘۔ادھر اسرائیلی وزیردفاع کا بھی اس سے ملتا جلتا بیان سامنے آیا ہے کہ’’ ہمیں مشرق وسطیٰ میں تین چیلنجز کا سامنا ہے:ایران،ایران اور ایران‘‘۔
اسرائیل کے ساتھ قربتیں بڑھانے میں سعودی عرب تنہا نہیں ہے بلکہ دیگر خلیجی ممالک بھی اس کے ساتھ ہیں جن میں امارا ت سب سے پیش پیش ہے۔دبئی پولیس کے سابق سربراہ ضاحی خلفان نے اپنی ٹویٹ میں یہاں تک کہ دیا کہ ’’میں فلسطین کے قیام کی تجویز نہیں دیتا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اسرائیل ہی میں یہودی اور فلسطینی مل کر رہیں،70 سال بعد (اسرائیل میں) مسلمانوں کی آبادی 75٪ ہو جائے گی‘‘۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکا کے بڑے حلیف ہیں،کیا امارات اور سعودی عرب کے پاس اسرائیل کا کوئی متبادل نہیں؟ اور کیا ایران عربوں کے لیے اس قدر خوفناک ہے کہ وہ اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہو کر ایران کا مقابلہ کریں گے؟
اور کیا اسلامی ملک فلسطین کا دشمن اسرائیل سعودی عرب کا دشمن نہیں؟قبلہ اوّل کا مرکز فلسطین سعودی عرب کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا پھر مادی طاقت کا مرکز امریکا؟ یا پھر دوستی کے معیار تبدیل ہو گئے ہیں اور اب نظریہ و بھائی چارہ سے زیادہ طاقت اور اسلحہ کی وقعت ہے؟اگر دوست کا دوست دوست ہوتا ہے تو کیا دوست کا دشمن دشمن نہیں ہوتا؟