قطر سے سفارتی و تجارتی تعلقات منطقع کرنے والے عرب و خلیجی ممالک اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ بات روس کے لیے متحدہ عرب امارات کے سفیر عمر غباش نے برطانوی اخبار گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔
اماراتی سفیر نے بتایا کہ نئی پابندیوں میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ قطر مخالف عرب ممالک اپنے تجارتی ساتھیوں سے یہ کہیں کہ وہ قطر یا ان میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے رواں ماہ قطر پر دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اس سے سفارتی، سفری و تجارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جبکہ قطر ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ ان ممالک کی جانب سے قطر کے سامنے 13 مطالبات کی فہرست بھی رکھی گئی ہے جن پر عملدرآمد کے لیے اسے دس دن کی مہلت دی گئی ہے۔ تاہم قطر کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک عرب ممالک سے بات چیت نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر عائد معاشی اور سفری پابندیاں نہیں ہٹائی جاتیں۔ قطر کو ان سفارتی اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ایسی صورتحال میں ترکی اور ایران وہ دو ممالک ہیں جو اسے خوراک اور دیگر اشیا بھجوا رہے ہیں۔عمر غباش کا کہنا تھا کہ قطر کا خلیج تعاون تنظیم سے اخراج واحد ایسی پابندی نہیں جو لگائی جا سکتی ہے۔
'کچھ ایسی اقتصادی پابندیاں ہیں جو ہم لگا سکتے ہیں اور ان پر فی الوقت غور کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'ان میں سے ایک چیز ممکنہ طور پر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے تجارتی شراکت داروں پر ہی پابندی عائد کر دیں اور ان سے کہیں کہ وہ فیصلہ کر لیں کہ انھیں قطر کے ساتھ کام کرنا ہے یا ہمارے ساتھ۔قطر مخالف ممالک کی جانب سے اس سے جو 13 مطالبات کیے گئے ہیں ان میں ٹی وی چینل الجزیرہ اور ترک فوجی اڈے کی بندش کے علاوہ ایران سے تعلقات میں کمی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ قطر نے ان مطالبات کو نامناسب اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔اس تنازع میں قطر کے خلاف کارروائی کرنے والے تمام عرب ممالک امریکہ کے انتہائی قریب ہیں تاہم امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کا بھی یہی کہنا ہے کہ قطر سے پابندیاں ہٹانے کے لیے چار عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ مطالبات میں سے کچھ ایسے ہیں جنھیں پورا کرنا مشکل ہوگا۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ تجاویز اس مسئلے کے حل کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔