اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف ترکی کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے دو طرفہ تعلقات اور علقائی صورتحال کے بارے میں ملاقات اور تبادلہ خیال کیا ہے۔
ایران پر فتح حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب دہشت گردوں کی پناہ میں
ایران کے دارالحکومت میں واقع سابق سپریم لیڈر اور روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کے مزار پر خودکش حملہ کیا گیا جبکہ ایران کی پارلیمنٹ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، ان دونوں دہشت گردی کے واقعات میں 12 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے جبکہ دولت اسلامیہ داعش) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
، داعش کی جانب سے پہلی مرتبہ ایران میں کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے جبکہ عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ افواج دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
خیال رہے کہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے شدت پسند تنطیم داعش نے شام اور عراق کے بڑے رقبے پر 2014 میں قبضہ کر لیا تھا، بعد ازاں امریکا کی قیادت میں عالمی اتحاد نے داعش کے خلاف حملے شروع کیے، تاہم عالمی اتحاد نے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور وہ بشار الاسد کی بھی حکومت سے علیحدگی چاہتے تھے، تاہم روس شامی صدر کے ساتھ کھڑا ہوا اور داعش کے خلاف حملوں کا آغاز کیا۔
روس کے علاوہ ایران بھی شام میں بشار الاسد کی حکومت کا حامی ہے، جبکہ ایران نے شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑنے والے گروہوں کی بھی حمایت کی ہے، اسی طرح شام میں داعش کے خلاف لڑتے ہوئے ایران کے کئی اعلیٰ فوجی افسران کی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔
داعش کے پوری دنیا میں صرف تین ہیں حامی ہیں جن میںسعودیہ اسرائیل اور امریکہ شامل ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ دو روز قبل ہی ںہ صرف سعودیہ کے وزیرد فاع محمد بن سلمان بلکہ سعودیہ کے وزیر خارجہ عال الجبیر نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ ایران دہشت گردوںکی حمایت بند کر دے ورنہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ سعودیہ نے اپنی ہی پروردہ بدنام زمانہ تکفیری گروہ داعش کو ایران کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ تاہم اگر سعودیہ نے ایران کے خلاف پراکسی جنگ کا آغاز کر دیا تو شاید یہ آگ بجھانا اس کے لیے بھی پھر ممکن نہ رہے۔