یمن کی جنگ کے بارے میں امریکی موقف پر یمنی حکومت کا ردعمل
1299
M.U.H
01/11/2018
یمن پر جارح سعودی اتحاد کے حملوں کو روک دیئے جانے پر مبنی امریکی درخواست کے ردعمل میں یمنی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو ممالک یمن میں جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں فوری اور عملی اقدامات انجام دیں-
یمن کی نیشنل سالویشن فرنٹ کی حکومت کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت یمن پر جارح سعودی حکومت کے حملوں کو بند کرانے اور سیاسی مذاکرات دوبارہ شروع کرانے کی امریکی درخواست کا خیر مقدم کرتی ہے-
یمن کی نیشنل سالویشن کی حکومت کے وزیر خارجہ ہشام شرف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جو ممالک یمن میں فائربندی پر زور دیتے ہیں، انہیں اس سلسلے میں فوری اور عملی اقدامات انجام دینے ہوں گے-
ان کا کہنا تھا کہ یمن کی نیشنل سالویشن کی حکومت ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حقیقی اور دیر پا امن کی برقراری کوششوں کی جانب اپنا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسا امن چاہتے ہیں جو یمنی عوام کے مفادات اور ملک کی سالمیت اور استحکام کا ضامن ہو-
اس درمیان یمن کی عوامی انقلابی کمیٹی کے سربراہ محمد علی الحوثی نے جارح سعودی اتحاد سے یمن پر حملے روک دینے پر مبنی امریکی درخواست کو غیر حقیقت پسندانہ بتایا-
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ یمن کی جنگ کی کمان امریکیوں کے ہاتھوں میں ہی ہے، کہا کہ امریکا اس طرح کا ڈرامہ کر کے یمن میں جاری قتل و غارتگری سے خود کو بچانا چاہتا ہے-
یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے رکن محمد البخیتی نے بھی کہا ہے کہ یمن پر مسلط کی گئی جنگ میں امریکا خود ایک اصلی فریق ہے اور وہ اس مسئلے میں ایک ثالث کا رول نہیں ادا کر سکتا-
انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل پر اتفاق رائے کے لئے سبھی یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات انجام پانے چاہئیں- ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی غیر ملکی فریق کو کسی بھی شکل یا عنوان سے یمن سے متعلق مذاکرات میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے-
واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیئو نے یمن میں جارح سعودی اتحاد کے چوالیس مہینے سے جاری وحشیانہ حملوں کے بعد کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن سے متعلق امن مذاکرات شروع ہونے والے ہیں-
امریکی وزیرخارجہ نے یمنی گروہوں سے بھی کہا کہ وہ جنگ کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں-
مبصرین کا کہنا ہے کہ یمن میں جنگ اور حونریزی کو روکنے کے سلسلے میں امریکا اور یورپ کی درخواست اس لئے نہیں ہے کہ انہیں یمن میں رونما ہونے والے انسانی المئے کا احساس ہو گیا ہے، بلکہ مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد رائےعامہ کے دباؤ کی وجہ سے ہے۔