ایک طرف جہاں عراق سے داعش کے مکمل طور پر خاتمے کی بات ہورہی ہے اور دنیا داعش کا کام تمام ہوتا دیکھ رہی ہے وہیں سیاسی گلیاروں میں یہ گفتگو بھی ہورہی ہے کہ عراق سے داعش کے خاتمے کے بعد امریکہ کیا سیاست ترتیب دیگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکام کی نظریں قدرتی ذخائر سے مالامال مشرق وسطیٰ کی زمینوں پر جمی ہوئی ہیں اسی لیے ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان ممالک میں اپنی فوج کے باقی رہنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے داعش کو عراق میں اتارا اور پھر اس کا مقابلہ کرنے کے بہانے داعش مخالف اتحاد بنایا تاکہ عراق میں اپنی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے مگر عراقی عوام نے اس منصوبے کی مخالفت کی۔
عراقی مجلس اعلیٰ کے سربراہ عمار حکیم نے امریکہ کی اس ماحول سازی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ داعش کی شکست کے بعد عراق میں کسی بھی غیرملکی فوجی کی موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔موصل سے داعش کا قبضہ جمعرات (29 جون 2017) کو اس وقت ختم ہوگیا کہ جب مسجد جامع النوری کو داعش کے قبضے سے آزاد کرالیا گیا۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے سرغنہ ابوبکر البغدادی نے اپنی خودخواندہ خلافت کا اعلان کیا تھا۔ فی الحال عراقی فوج اور عوامی رضاکار فورس (الحشد الشعبی) داعش کے قبضے سے کچھ چھوٹے چھوٹے باقی ماندہ علاقوں کو آزاد کرانے کی کوشش کررہی ہے۔
اس بیچ جو بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ عراق کی خود اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں کیونکہ عراق نے اپنے ہی جوانوں کے بل پر ملک کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس میں کسی بھی غیرملکی طاقت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
ان جوانوں نے ایسے حالات میں کامیابی حاصل کی ہے کہ امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش بہت خطرناک تنظیم ہے اسے عراق میں شکست دینا آسان کام نہیں ہے۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو کہ خود امریکہ ہی داعش کی پشت پناہی کررہا تھا اور اسے یقین تھا کہ جب تک ہم داعش کو مدد پہنچاتے رہیں گے اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔اس سلسلے میں لبنانی کالم نگار ناصر قندیل نے لبنانی روزنامہ البناء کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ عراق اور شام میں داعش کو شکست ملنے کے بعد امریکہ کو ان ممالک میں اپنے فوجیوں کو اتارنے کا کوئی بہانہ نہیں مل پائےگا اور داعش مخالف اتحاد بھی ختم ہوجائےگا اور پھر امریکہ اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اور بہانہ وضع کرےگا۔فی الحال امریکی حکومت عراق میں داعش کی شکست کو اپنی شکست سمجھ رہی ہے اسی لیے وہ عراق کے لیے ایک نیا سنیریو بنارہی ہے تاکہ عراق میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ جب کہ امریکہ کی مداخلت پسندانہ سیاست کی ہی وجہ سے عراق میں لوگوں کا قتل عام ہوا اور دہشتگردی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ایسا نہیں ہے کہ داعش کے خاتمے کے بعد عراقی عوام کو سکون کی زندگی مل جائے گی اور ان کے ملک سے خون خرابے کا ماحول ختم ہوجائےگا بلکہ ایک طرف جہاں داعش کے دہشتگردوں کے عراقی عوام پر ظلم کیا وہیں داعش مخالف اتحاد نے بھی عراقی عوام پر کم ظلم نہیں کیا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں سینکڑوں عام شہری داعش مخالف اتحاد کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں۔ امریکہ کی سازشوں سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ کی نظریں عراق کے تیل پر جمی ہوئی ہیں۔امریکہ کی اسی سیاست کی وجہ سے اب عراقی عوام کو امریکہ پر کسی قسم کا اعتماد نہیں رہا اور لوگ اس کے تعلق سے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔