امام خامنہ ای نے چند سال قبل فرمایا کہ اسرائیل اگلے ۲۵ برسوں کو نہیں دیکھ سکے گا جس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ریاست اگلے ۲۵ سال تک قائم رہ سکے گی؛ بلکہ ان شاء اللہ یہ ریاست بہت جلد محو و نابود ہوجائے گی۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، تہران میں مقیم فلسطینی مزاحمتی تحریک “جہاد اسلامی” کے مندوب “ناصر ابوشریف” نے میزان نیوز ویب سائٹ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے یہودی ریاست کے نابود ہوجانے کے لوازمات اور امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ۱۹۹۰ کے عشرے کے آغاز پر، جب فلسطین کے امن مذاکرات کی بات ہورہی تھی، رہبر انقلاب امام خامنہ ای نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ “وہ فلسطینی عوام کی تحریک کو بجھا دینا چاہتے ہیں”؛ بعدازآں فرمایا: “لیکن کیا وہ فلسطینی عوام کی تحریک کو خاموش کرسکتے ہیں؟”، چند سال بعد ۲۰۰۸ میں ہم نے دیکھا کہ یہودی ریاست کو غزہ میں شکست ہوئی؛ جس سے امام کی نگاہ اور تجزیئے کی گہرائیوں اور آئندہ بینی اور دور اندیشی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی پہلی والی پیشنگوئی نے عملی جامہ پہنا؛ اور دو سال قبل امام خامنہ ای نے فرمایا کہ یہودی ریاست اگلے ۲۵ سالوں کو نہیں دیکھ سکے گی جسے اگر آپ کی پچھلی پیشنگوئی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ پیشنگوئی بھی بہرحال حقیقت کا روپ دھار لے گی۔
ابو شریف کا کہنا تھا: ہم جانتے ہیں کہ امام خامنہ ای کی رائے اصولا یہ ہی نہیں کہ یہودی ریاست اگلے ۲۵ سال تک باقی رہے گی اور اس کی فنا اور نابودی بہت قریب ہے اور ان شاء اللہ یہ ریاست اگلے چند ہی برسوں میں روئے زمین سے محو ہوکر رہے گی۔
اسرائیل اگلے ۲۵ برسوں کو نہیں دیکھ سکے گا جس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ریاست اگلے ۲۵ سال تک قائم رہ سکے گی؛ بلکہ ان شاء اللہ یہ ریاست بہت جلد محو و نابود ہوجائے گی۔ اور اس کی نابودی کے اسباب و عوامل کی روشنی میں رہبر معظم کا یہ ارشاد بجا ہے کہ “ہم عنقریب مسجد الاقصی میں ان ہی کی امامت میں نماز ادا کریں گے”۔
ابو شریف نے اگلے ۲۵ برسوں سے پہلے ہی یہودی ریاست کی نابودی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا: سب سے پہلا سبب تو فلسطینی عوام ہیں جو یہودی ریاست کو چین سے نہیں رہنے دیتے اور مستحکم ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے؛ اور پھر فلسطین پر قابض یہودی ریاست کے گرد و پیش کے ممالک عرب اور اسلامی ہیں اور ان ممالک کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی غیر متناسب شیئے اور کسی بھی اجنبی دشمن کو اپنے اندر قبول نہیں کرسکتے۔
دوسرا مسئلہ وہ وعدہ ہے جو اللہ نے ۱۴۰۰ سال قبل سورہ بنی اسرائیل میں دیا ہے۔ اس سورت کی آیات کریمہ سے ثابت ہے کہ صہیونی ریاست بہرصورت نابود ہوکر رہے گی۔
تیسرا مسئلہ یہودیوں کے اندر کے دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں جو اپنی انتہاپسندی اور غلط پالیسیوں کے بموجب اپنے گرد و پیش کے ماحول سے لڑ پڑیں گے اور نتیجے کے طور پر یہ ریاست فنا اور زوال کی طرف چلی جائے گی۔ اسی بنا پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ۱۹۸۲ سے آج تک یہودی ریاست ایک بار بھی کامیابی کا منہ نہيں دیکھ سکی ہے؛ اس کو پہلی انتفاضہ تحریک میں شکست ہوئی، دوسری انتفاضہ تحریک میں بھی اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔ سنہ ۲۰۰۶ میں حزب اللہ کے ہاتھوں اور ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۴ میں فلسطین کی اسلامی مزاحمت تحریک کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی؛ صہیونیوں کے ان تمام جنگوں میں شکست ہوئی جبکہ دنیا بھر کی تمام طاقتیں اس کی حمایت کررہی تھیں اور اس کو امداد فراہم کررہی تھی؛ پھر بھی مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوئی۔
چوتھا نکتہ جو شاید اہم بھی ہو، یہ ہے کہ نیتن یاہو نے چند ماہ قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ موجودہ یہودی حکومت حشمونیوں کی حکومت سے کچھ زیادہ طویل عرصے تک قائم رہے۔ حشمونی حکومت پہلی صدی عیسوی میں قائم ہوئی اور اسی سال تک قائم رہی اور نیتن یاہو نے خواہش ظاہر کی کہ موجودہ یہودی ریاست کم از کم ۱۰۰ سال تک قائم رہے یعنی اس کی عمر حشمونیوں کی حکومت سے ۲۰ سال زیادہ ہو اور نیتن یاہو کی یہ آرزو یہودی ریاست کے مستقبل کی نسبت ان کے شدید خوف اور تشویش کی علامت ہے۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کے نامورترین سیاستدان کیسنگر نے بھی ۲۰۱۲ میں پیشنگوئی کی ہے کہ اگلے ۱۰ سال تک اسرائیل نامی کوئی شیئے روئے زمین پر باقی نہیں رہے گی۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کیسنگر ـ جو بذات خود سازشی منصوبہ ساز تھے اور سازشوں پر مبنی نظریہ پردازی کرتے تھے نیز یہودی ریاست کے تحفظ کے لئے بہت زيادہ کوشاں رہے ہیں اور ان ہی کے دور میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان درجنوں معاہدے منعقد ہوئے ہیں ـ خود ہی کہتے ہیں کہ اس حکومت کی عمر میں ۱۰ سال سے زیادہ کا عرصہ باقی نہیں ہے۔ یعنی اگر ہم انگلیوں پر گن کر حساب کریں تو ۲۰۱۲ میں انھوں نے یہ موقف اپنایا تھا اور اسرائیل کے لئے ۱۰ سالہ بقاء کی پیشنگوئی کی تھی اور ۲۰۲۲ اس معینہ مدت کا آخری سال ہے۔
چھٹا نکتہ قرآنی مباحث ہیں اور قرآنی مباحث میں کچھ اعداد کا استخراج ہوا ہے جو قرآن کے اعجاز کے زمرے میں آتے ہیں جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں یہودی ریاست کی پوری عمر کا تخمینہ ۷۶ سال لگایا گیا ہے اور کیسنگر کی پیشنگوئی بھی اس قرآنی عددی اعجاز سے مطابقت رکھتی ہے، گوکہ قرآن سے یہودی ریاست کے مقدرات کے سلسلے میں اعدادی استخراجات چونکہ احتمالات کے زمرے میں آتے ہیں، لیکن بہرحال اس حوالے سے بھی سنہ ۲۰۲۲ میں اسرائیل نامی ریاست کا نام و نشان تک نہ ہوگا ان شاء اللہ۔ (۱)
ساتواں نکتہ وہ دوسرے اسباب و عوامل ہیں جو یہودی ریاست کے زوال کا پیش خیمہ ہیں۔ بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جو فلسطینیوں کے حق میں تھے۔ بطور مثال ۱۹۸۲ میں یہودی ریاست نے لبنان پر ہلہ بول دیا اور اس حملے کا مقصد تنظیم آزادی فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تنظیموں کا خاتمہ تھا، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ “حزب اللہ” کی ولادت ہوئی جو آج یہودی ریاست کے پہلے نمبر کے تزویری دشمن میں بدل گئی ہے۔ حزب اللہ کا معرض وجود میں آنا اسرائیل کے زوال کے اہم اسباب میں شمار ہوتا ہے۔
آٹھواں نکتہ یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا، یہودی ریاست، عرب ریاستوں اور ترکی کے ساتھ مل کر شام پر حملہ آور ہوئے اور اس کی نابودی کا تہیہ کیا لیکن اب انہیں حزب اللہ کے کئی جدید نسخوں کا سامنا ہے اور یہودی ریاست شام کے جنوب میں ایک نئی حزب اللہ کی تعیناتی سے ہراساں ہے اور شام کی جنگ نے اسرائیل کی منحوس حیات کو مزید مختصر کردیا ہے۔
نواں نکتہ یہ ہے کہ امریکیوں، یورپیوں نے یہودی ریاست سے مل کر عرب اور ترک حکمرانوں کی مدد سے متعدد تکفیری ٹولے تشکیل دیئے اور ان کی تشکیل نیز انہیں تربیت دینے اور مسلح کرنے پر بڑی بڑی رقوم خرچ کردیں لیکن جب انہیں شکست ہونے لگی تو گویا انہیں چھوڑ دیا گیا یا پھر صہیونیوں اور ان کے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں نے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی، چنانچہ اب وہی تکفیری ٹولے رفتہ رفتہ مغرب اور اسرائیل کے خلاف موقف اپنائیں گے جیسا کہ حال ہی میں ایک تکفیری ٹولے نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور یہ کہ اسرائیل کی پالیسیاں قابل نفرت ہیں اور بعدازیں اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرے گا۔
دسواں نکتہ: ایک موضوع استبدادی عرب حکومتیں ہیں اور ہمیں یقین ہے یہ استبدادی حکومتیں قائم دائم نہیں رہیں گی اور آخرکار انہیں نیست و نابود ہونا ہے؛ عوامی لحاظ سے یہ حکومتیں ناجائز اور غیر قانونی ہیں اور ان کا پورا ہم و غم ہی یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرکے اپنی بقاء کی کوشش کررہی ہیں؛ اگر یہ جائز اور قانونی حکومتیں ہوتیں تو عوامی مقبولیت ہی ان کے لئے کافی ہوتی اور انہیں اپنی بقاء کے لئے امریکہ اور یہودیوں کی حمایت کی ضرورت نہ پڑتی اور اپنے تحفظ کے لئے ان کی خوشنودی حاصل نہ کرنا پڑتی؛ یہ حکومتیں اپنی بقاء کے لئے یہودی ریاست کی بقاء میں مدد دے رہی ہیں بہرصورت ان حکومتوں کا زوال اسرائیل کے خاتمے کے اسباب میں شمار ہوگا گوکہ اگر اسرائیلی ریاست ان سے پہلے زوال پذیر ہوئی، پھر بھی یہ زوال پذیر ہونگی کیونکہ ان کا قیام اسرائیل کی بقاء کے تحفظ کے لئے عمل میں لایا گیا تھا اور اسرائیل کے خاتمے کے بعد ان کی بقاء کا فلسفہ ہی زائل ہوجائے گا۔
بہرحال ہم بدستور طاقتور ہیں، گوکہ ہمارے دشمن بھی کمزور نہیں ہیں، یہ درست ہے کہ امریکہ اور یہودی ریاست طاقتور ہیں، لیکن ان کی طاقت محدود ہے، اور اس میں رفتہ رفتہ کمی آرہی ہے اور وہ پسپا ہورہے ہیں۔
تو کیا غاصب یہودی ریاست کا زوال بہت جلد متوقع ہے؟
ابوشریف نے کہا: مذکورہ بالا مسائل کی رو سے یہودی ریاست کا زوال بالکل قریب ہے، کیونکہ یہ ریاست علاقے میں نہیں ڈھل سکی ہے اور حقیقتا اسی بنا پر طویل عرصے تک قائم دائم نہیں رہ سکتی اور اگر وہ اب تک قائم ہے تو اس کا سبب بیرونی امداد ہے۔ ورنہ تو فلسطینی عوام اور گردوپیش کے ممالک کے ساتھ اس کا تعلق نہایت نامناسب ہے؛ البتہ گرد و نواح کے ممالک سے میری مراد ان ممالک میں رہنے والی قومیں ہیں نہ کہ ان ممالک پر مسلط استبدادی حکومتیں، کیونکہ حکومتوں کے تو یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور ان کے حکام یہودیوں کے رفقائے کار ہیں اور ان کی حمایت کررہے ہیں تاکہ اسرائیل ان کے تاج و تخت کی حفاظت کرے یا پھر وہ قائم رہے تا کہ ان کی حکمرانیوں کا فلسفہ بھی باقی رہے۔ لیکن وہ جو کریں، یہودی ریاست کا زوال عنقریب ہے؛ ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔
۱۔ قرآن کریم کو ریاضی کے سانچے میں ڈھالنا، اور اعداد و شمار نکال کر کوئی پیشن گوئی کرنا، اہل علم کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے، گوکہ ہر مسلمان کی خواہش اور دعا ہے کہ اللہ انہیں ان کے بدترین دشمن “یہود” کے تسلط سے نجات دلائے۔
بےشک یہودی ریاست ختم ہوگی اور جہاد اسلامی کے نمائندے نے بھی اس کے لئے کئی اسباب بیان کئے ہیں لیکن اس کی نابودی کو کسی سال و ماہ و تاریخ سے جوڑنا شاید زیادہ مناسب نہ ہو۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ دوسرے اسباب کے فراہم ہوئے بغیر ہی کوئی عظیم واقعہ کسی خاص تاریخ پر رونما ہو یا ۲۰۲۲ کو یہودی ریاست زوال پذیر ہوجائے۔ بےشک یہودی ریاست کے لئے مسلم ممالک کی بیداری اور ہوشیاری اور دو ٹوک اور یکسان موقف ہے جو اگر معرض وجود میں آئے تو مذکورہ ریاست خود بخود ختم ہوجائے گی۔ امام خمینی نے فرمایا: “اگر ایک ارب مسلمان متحد ہوکر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر پھینک دیں تو اسے پانی بہا کر لے جائے گا”۔ چنانچہ اتحاد مسلمین اہم ترین سبب ہے اور اگر یہ اتحاد آج حاصل ہوجائے تو شاید ہمیں ۲۰۲۲ کا بھی انتظار نہ کرنا پڑے۔ ان شاء اللہ