اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کا کہنا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کی جنگ نے اس ملک کو بچوں کے لیے جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سبین ہسپتال کے وارڈ میں زیر علاج 20 بچوں میں سے اکثر کی عمر 2 سال سے کم ہے، ہسپتال کے غذائی قلت وارڈ میں ڈاکٹر انتہائی کمزور چھوٹے بچوں کا وزن کرتے ہیں، جن کے جسم پر گوشت نہیں اور ہڈیاں نمایاں ہیں۔
یہ بچے بھی ان ہزاروں میں سے ہیں جو گزشتہ تین برس سے جاری جنگ میں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
یمن میں تعینات یونیسیف کی نمائندہ میرٹزیل ریلانو کے کہنا تھا کہ یمن میں جاری جنگ نے ملک کو بچوں کے لیے جہنم بنادیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یمن کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بچے اور ملکی آبادی کے 18برس سے کم عمر 80 فیصد بچے غذا کی کمی، بیماریوں اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کی وجہ سے شدید خطرات کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اندازاً 18 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں سے تقریباً 4 لاکھ غذا کی شدید کمی کا شکار ہیں اور روزانہ اپنی زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مشترکہ اتحاد نے 2015 میں یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا ۔
2 کروڑ 80 لاکھ افراد پر مشتمل یمنی آبادی جنگ کے باعث بدترین انسانی بحران کا شکار ہے ، جہاں 84 لاکھ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 2 کروڑ 20 لاکھ افراد امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کوآرڈینیٹر لیز گراندے نے ایک بیان میں کہا ہےکہ یمن میں جاری جنگ میں انسانی جانوں کا نقصان اور انسانیت پر مرتب ہونے والے اثرات ناقابل قبول ہیں۔
واضح رہے کہ یمن پر سعودی اتحاد کی جاری جارحیت کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، یمن میں جنگی جرائم کے مرتکب قرار پائے ہیں۔