اسلام میں بہت سے سماجی معاملات نیز روحانیت کے حصول میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں: آیت اللہ خامنہ ای
56
M.U.H
04/12/2025
تہران: رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یوم ولادت دختر رسول جناب فاطمہ زہرا (س) کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی (رح) میں سیکڑوں خواتین اور لڑکیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ دین اسلام نے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں، کار و بار، زیادہ تر سرکاری عہدوں کا انتظام سنبھالنے اور دیگر شعبوں میں عورت اور مرد کو برابر کے حقوق سے نوازا ہے نیز معنویت کے حصول اور فردی اور عام اقدامات میں خواتین کی ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر جناب فاطمہ زہرا (س) کی سیرت پر روشنی ڈالی اور دختر رسول اکرم (ص) کو ایک عرشی انسان قرار دیا جو بہترین اور اعلی ترین خصوصیات سے آراستہ ہیں۔
آپ نے اس موقع پر اسلام کی نگاہ میں خواتین کے حقوق اور شان و منزلت اور گھرانے اور سماج نیز بیوی اور دیگر خواتین کے سلسلے میں مردوں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب نے اس موقع پر عبادت اور معنویت، ایثار کے جذبے، مشکلات میں صبر و تحمل، مظلوم کے حق کے شجاعانہ دفاع، حقیقت کی تشریح اور اعلان، سیاسی سمجھداری اور سیاسی عمل، "گھرانے کی باگ ڈور سنھبالنے، شوہر اور فرزندوں کے حقوق پر عمل" اور صدر اسلام کے اہم تاریخی واقعات میں کردار ادا کرنے کے سلسلے میں بھی جناب فاطمہ زہرا (س) کے فضائل کو ان گنت قرار دیا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ: "الحمد للہ کہ ایرانی خواتین نے ایسی شخصیت کو اپنا نمونہ عمل قرار دیا اور ان کی بتائی گئی راہ کا انتخاب کیا جنہیں رسول اکرم (ص) نے دنیا کی تمام خواتین کی سردار قرار دیا ہے۔"
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای اسلام میں خواتین کے انتہائی عالی شان مقام پر زور دیا اور فرمایا کہ عورت کی شناخت اور شخصیت کے بارے میں قرآن کریم کی عبارات اعلی ترین اور مترقی ترین عبارات ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مرد اور عورت کو زندگی اور تاریخ بشر، نیز معنوی کمال کے بلندترین مقام تک پہنچنے کے لیے برابر قرار دیا گیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ نکات ان دیندار لوگوں کے دین کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور دین مخالف عناصر کی سمجھ کے متضاد ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خواتین کے حقوق کے سلسلے میں قرآن کریم کے منطق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:" دین اسلام میں سماجی اور سیاسی سرگرمیوں، کار و بار، زیادہ تر سرکاری عہدوں پر فائز ہونے اور دیگر شعبوں میں عورت اور مرد کو برابر کے حقوق سے نوازا ہے نیز معنویت کے حصول اور فردی اور سماجی اقدامات میں خواتین کی ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔"
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلام کی نگاہ میں مغربی اور سرمایہ دارانہ نظام کی انحطاط پزیر ثقافت کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات میں خواتین کی شان کو محفوظ رکھنے اور انتہائی خطرناک اور طاقتور جنسی خواہشوں کو قابو میں کرنے کے لیے خواتین اور مردوں کے رابطے کی نوعیت، دونوں کے لباس اور خواتین کے حجاب جیسے حدود اور شادی کا راستہ ہموار کرنے کے احکامات موجود ہیں۔
آّپ نے ان حدود کو عورت کی فطرت، مصلحت اور معاشرے کی حقیقی ضرورتوں کے عین مطابق قرار دیا اور فرمایا کہ مغربی ثقافت میں موجود بے انتہا کششوں اور تباہ کن جنسی لذتوں کی قرآن کریم کے مطابق انسانی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلام کے مطابق، عورت اور مرد توازن برقرار کرنے کے دو عنصر ہیں جن میں فراوانی سے مشترکات پائے جاتے ہیں اور جسمانی اور فطری خصوصیات کے لحاظ سے بعض فرق بھی ہیں۔
قائد انقلاب نے انسانی معاشرے کے تسلسل، نسل بشر کی بقا، تمدن کی ترقی، معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے نیز زندگی کا انتظام سنبھالنے کے لیے، ان دو عناصر کی موجودگی کو ضروری قرار دیا۔
آپ نے مغرب کی غلط تہذیب کے برخلاف، اسلام میں گھرانے کی تشکیل اور اس کے اجزا کے درمیان عورت، مرد اور فرزندوں کے رشتے کے لیے واضح حقوق کی تدوین کو الہی تعلیمات کی برتری کی علامت قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر سماجی اور گھرانے میں انصاف پسندانہ برتاؤ پر روشنی ڈالی اور اسے خواتین کے ابتدائی حقوق میں سے قرار دیا۔
آّپ نے فرمایا کہ مغربی سرمایہ داری کے برخلاف جہاں عورت کے وقار کو پاؤں تلے روند دیا گیا ہے، حکومت اور سماج کو سلامتی، حرمت اور کرامت کو یقینی بنا کر خواتین کے اس قرآنی حق پر عمل کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے عورت کو "پھول" نہ کہ "رکھوالی اور گھر کے کاموں کی ذمہ دار" قرار دیا ہے۔
قائد انقلاب نے فرمایا کہ اس زاویہ نگاہ کے مطابق، عورت سے غصہ کرنے اور اسے جھڑکنے سے پرہیز اور پھول کی طرح اس کا خیال رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا چاہیے تا کہ وہ گھر کو اپنا رنگ اور خوشبو سے نواز سکے۔
آپ نے جناب مریم (س) اور جناب آسیہ (س) کو ان خواتین میں قرار دیا جہنیں قرآن کریم نے مثالی شخصیات کے طور پر پیش اور تمام مردوں اور باایمان عورتوں کے لیے نمونہ عمل گردانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گھر کے کاموں کو خاتون خانہ پر مسلط کرنے سے پرہیز، بچہ پیدا ہونے کے بعد خواتین کو درپیش مسائل میں شوہر کی مدد، سائنسی شعبوں اور کاروبار میں ترقی کے لیے خواتین کا راستہ کھولنے کو عورت کے حقوق کا اہم حصہ قرار دیا اور فرمایا کہ خاتون خانہ گھر کی مدیر اور منتظم ہوتی ہے اور گھر کا انتظام ماہرانہ اور ہنرمندانہ انداز میں سنبھالنے کے لیے ان کی قدردانی ہونی چاہیے۔
آپ نے فرمایا کہ اسلام میں عورت کے لیے خودمختاری، صلاحیت، شناخت اور ترقی کی راہ فراہم ہوئی ہے حالانکہ اس کے بالعکس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت عورت کو مرد کے سامنے کسی شناخت کا حق حاصل نہیں ہے اور مغربی نظام نے اسے صرف ہوس بازی اور عیش و عشرت کا وسیلہ بنا دیا ہے۔
آپ نے امریکہ میں اس سلسلے کے مجرم حلقوں کی خبریں منظر عام پر آنے کو سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کا ایک اور نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ بن باپ کے گھرانے، گھرانے کی بنیادوں کی کمزوری، نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرنے والے گروہ، جنسی بے راہ روی کو پھیلانے کی سرگرمیاں وہ بڑے گناہ ہیں جنہیں گزشتہ دو صدی میں سرمایہ دارانہ نظام نے ہوا دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام، فریب کے ساتھ ان جرائم کو آزادی ٹہراتا ہے اور ایران سمیت دنیا بھر میں اس کی تشہیر بھی کرتا ہے، حالانکہ یہ آزادی نہیں بلکہ کھلے عام اسارت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ مغرب اپنی غلط تہذیب کی اشاعت کرتے ہوئے حجاب کو عورت کی ترقی کی رکاوٹ کا باعث قرار دیتا ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس غلط منطق کو ثابت کردیا اور دکھا دیا کہ مسلمان اور حجاب کی پابند خاتون، اسلامی لباس کے ساتھ تمام شعبوں میں دوسروں سے بڑھ کر کردار ادا کرسکتی ہے۔
آّپ نے ایران کی تاریخ کے مختلف ادوار میں سائنس، اسپورٹس اور کھیل، فکری، تحقیقاتی، سیاسی، سماجی اور طبی میدانوں میں ایرانی خواتین کو علمبردار قرار دیا اور فرمایا کہ شہیدوں کی بیویوں نے اپنے شوہروں کی ہمراہی اور تعاون کرکے کامیابی کا پرچم لہرا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جس بڑی تعداد میں آج اس سرزمین پر خاتون سائنسداں، محقق، مفکر اور مبصر موجود ہیں اس کا سواں حصہ کسی بھی تاریخی دور میں نہیں رہا ہے۔
آّپ نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہی اس سرزمین کی خواتین کو تمام شعبوں میں ترقی اور پیشرفت سے ہمکنار کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صیہونی جارحیت میں شہید ہونے والے کمانڈر میجر جنرل غلامعلی رشید کی اہلیہ نے جن کا بیٹا بھی ان حملوں میں شہید ہوا تھا، نیز سپاہ پاسداران انقلاب کے شہید کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی کی اہلیہ نے خواتین، ان کی ذمہ داریوں اور ان کے حقوق پر روشنی ڈالی۔