تہران - ارنا - ایران کے وزیر خارجہ نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکیوں کو چاہئے کہ مداخلت پر مبنی اپنے بیانات سے باہر نکل کر اس حقیقت کو جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پابندیاں لگانے یا نظام بدلنے کی پالیسیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار 'محمد جواد ظریف نے امریکی خارجہ تعلقات کونسل کے تھنک ٹینک کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر انہوں نے اس اہم نشست میں شریک بین الاقوامی شخصیات، تجزیہ کاروں، امریکی ماہرین کے سوالات کا جواب دیا بالخصوص ایران کی خارجہ پالیسی، جوہری معاہدے، خطے کی صورتحال اور مختلف بین الاقوامی مسائل پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر انہون نے کہا کہ امریکہ اسلامی انقلاب کے دور سے ایران میں نظام بدلنے کے لئے اقدامات کررہا ہے مگر سابق صدر اوباما کے دور میں باضابطہ اعلان کیا گیا کہ اب امریکی اس پالیسی پر گامزن نہیں جبکہ ہمیں اس مؤقف کی حقیقت پر یقین نہیں ہے۔ ظریف نے کہا کہ ایران میں موجود نظام کو عوامی حمایت حاصل ہے اور عوامی کی وجہ سے ہی نظام کو اختیارات حاصل ہیں اور یہ ایک اصل فرق ہے ایران اور خطے میں امریکی اتحادی ممالک کے درمیان۔ انہوں نے کہا کہ خطے کہ زیادہ تر ممالک غیرملکی تعاون اور حمایت کے زیر سایہ ہیں مگر ایران ایسا نہیں۔ ظریف نے امریکی حکام کے حالیہ بیانات کے جواب میں کہا کہ ایران میں نظام کو بدلنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ ایران ایسا ملک نہیں جو اپنے نظام کو جائز قرار دینے کا سرٹیفکیٹ امریکہ سے حاصل کرے بلکہ ہم اپنی قوم پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ہماری امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ایران میں مئی کے مہینے میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو مہینے پہلے ایرانی شہری 10 گھنٹے طویل قطاروں میں کھڑے رہے تا کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ اور اپنی خواہش کا اظہار کریں جبکہ یہ چیزیں بالکل دوسرے علاقائی ممالک میں نہیں ملتیں۔
ظریف نے سعودی حکام کے اس بیان پر کہ وہ جنگوں کو ایران کی طرف موڑ دینا چاہتے ہیں، کہا کہ وہ (سعودی عرب) پاکستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کی حمایت کرتا ہے اور ان میں سے بعض دہشتگردوں کو ایرانی پارلیمنٹ پر حملہ کرانے کے لئے تہران بھی بھیجوایا گیا، کیونکہ وہ ایرانی پارلیمنٹ سے خوش نہیں اور ایسی پارلیمنٹ اور عوامی ادارہ ان کے ملک ہے ہی نہیں۔ انہوں نے یمن کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ یمن پر جنگ کے آغاز کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ یمن میں فوری جنگ بندی اور انسانی ہمدری کی بنیاد پر امداد کی ترسیل کی تجویز پیش کی۔انہوں نے یمنی بحران کو تاریخ انسانیت اور انسانی حقوق کا بدترین واقعہ قرار دہتے ہوئے کہا کہ یمن میں جنگ بندی کے نفاذ سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کے لئے راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔
ظریف نے کہا کہ کیا ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں رہیں یا ایک دوسرت کو علاقائی سیاسی معاملات سے علیحدہ کریں کیونکہ ایسے اقدامات سے کسی فریق کو فائدہ نہیں ملے گا۔ انہوں نے شام کی صورتحال اور کیمیائی ھتھیاروں کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے بتایا کہ کیمیائی ھتھیار اسلامی جمہوریہ ایران کی ریڈلائن ہیں تاہم شام میں ایسے ھتھیاروں کے مبینہ استعمال کے لئے جامع تحقیقات ہونی چاہئیں اور ایسا اقدام ایک طے شدہ عمل کے تحت ہونا چاہئے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شامی علاقے خان شیخون میں مبینہ کیمیائی ھتھیارون کے استعمال کے حوالے سے امریکی دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ظریف نے کہا کہ ہماری نظر میں کیمیائی ھتھیاروں کا استعمال ہرگز قابل قبول نہیں مگر ہمیں یہ بھی منظور نہیں کہ وہ خود جج بنے، خود وکیل اور پھر خود جلاد کا کام کرے۔