روسی نیوز ایجنسی ’’ اسپاٹنک ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے فرانس میں متعین سابق ترک سفیر’’اولوتش اوزولکیر‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ جنوری کی11 تاریخ کو امریکی دارالخلافہ واشنگٹن میں ایک پانچ ملکی خفیہ اجلاس منعقد ہواتھا۔ ترک سفیر کے مطابق امریکہ، فرانس، سعودی عرب اور ان کے نمائندوںپر مشتمل اس اجلاس میں شام کی تقسیم پر تبادلہ خیال اور بات چیت ہوئی۔ اوزولکیر کے مطابق اجلاس میں اتفاق پایا گیاکہ پانچوں ممالک کے نمائندے وقفے وقفے سے اس قسم کا اجلاس کرتے رہیں، اجلاس اس بات پر بھی غور کیاگیا کہ مصر، جرمنی اور ترکی کو بھی ان اجلاسوںمیں شرکت کی دعوت دی جائے۔ اوزولکیر کے بقول جرمنی کو آئندہ اجلاس میں شرکت کی دعوت واقعی میںبھیجی گئی ہے جسکا جواب اب تک نہیں آیا، جبکہ مصر کو اب تک دعوت نہیں بھیجی گئی، ترکی کو دعوت بھیجنے پر پانچوں ممالک کے درمیاں اتفاق نہیں پایاگیا، ان ممالک کے نزدیک ترکی اور شامی کرد وںکے درمیان دشمنی اور اختلافات، اس پانچ فریقی اجلاس کے فیصلوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتےہیں۔
اوزولکیر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اجلاس میں شریک امریکی نمائندے نے اجلاس کے دوران کہا کہ شام میں ایرانی اثرورسوخ کو روکنے کےلیے امریکی افواج کی موجودگی ضروری ہے۔
اوزولکیر کے مطابق اجلاس میں شریک پانچوں ممالک نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ شام میں اصل مسئلہ روس ہے جو آستانہ مذاکرات کے ذریعے مضبوط اقدامات کررہا ہے اور ان اقدامات کو ناکام بناناانتہائی ضروری ہوگیا ہے۔
اجلاس میں شر یک ممالک نے کردوں کے حوالے سے ترکی کے موقف کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کُردوں اور انکی فورس کو اہم قرار دیا۔
اوزولکیر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ بنیادی طور پر اس خفیہ اجلاس میں 4اہم ایشوز پر بات چیت ہوئی:
نمبر۱: چھوٹی قسم کے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اوران ہتھیاروں کا علاقائی تنازعوں میں استعمال۔
نمبر۲: روس اور دیگر ممالک پر پاپندیاں عائد کرنے کا طریقہ ٔ کار کیونکہ یہ ممالک نیٹو کےلئے خطرہ بن چکے ہیں۔
نمبر۳: ایران پر اسرائیل کے حملے۔
نمبر۴: ترکی اور کردوں کا معاملہ جسکا اثر براہ راست ترکی اور امریکہ کے تعلقات پر پڑ رہا ہے اور اسی طرح علاقائی صورت حال پر بھی پڑ رہا ہے۔
ترک سفیر کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں شریک ممالک سوچی اور آستانہ مذاکرات کو ہر صورت میں ناکام کرنا چاہتے ہیں۔
اسکے علاوہ اوزولکیر کے بقول یہ ممالک ایران اور اسرائیل، ترکی اور کرد وںکے درمیان جنگ شروع کرانا اور شام کی تقسیم چاہتے ہیں۔
اوزولکیر کے بقول مشرق وسطیٰ میں جاری مسلح تنازعوں میں ا ضافے کا قوی امکان ہے اور ممکن ہے کہ ترکی کو بھی اس جنگ کےمیدان میں تبدیل کیا جائے جو کرد وںاور ترکی کے درمیان ہوگی۔
(تسنیم خیالی)