انقرہ: ترکی کے صدر رجبطیب اردغان نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل وعام پر سیکیورٹی فورسز کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی اقلیت کے خلاف ‘بدھ مت دہشت گردی’ کو ہوا دے رہے ہیں۔
طیباردغان نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو مسلسل نمایاں کرتے رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ینگون حکومت کو ریاست رخائن کے لوگوں کی ‘نسل کشی’ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ استنبول میں ایک تقریری کے دوران ترک صدر نے عالمی برادری کو میانمار کی حکومت کے خلاف پابندیاں نہ لگانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔اردوگان کا کہنا تھا کہ ‘وہاں پر مکمل طور پر نسل کشی ہورہی ہے’۔
میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی سے بھیاردغان نے فون پر بات کی تھی تاہم ان کا کہنا ہے کہ ‘بدھ مت ہمیشہ سے امن کے پیامبر کے طور پر پیش آتے ہیں’۔ ترک صدر نے کہا کہ ‘اس وقت میانمار میں مکمل طور پر بدھ مت دہشت گردی ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ اس کو یوگا سے کیسے تبدیل کیا جاسکتا اور یہاں یہ ایک حقیقت ہے اور تمام انسانیت کو اس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے’۔
یاد رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں ہونے والے ظلم کے باعث 4 لاکھ 30 ہزار روہنگیا مسلمانوں نے ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی سرحد پر پناہ لے رکھی ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ریاست میں اقلیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔طیب اردغان نے عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دنیا ‘اسلامی دہشت گردی’ کی فوری مذمت کرتی ہے لیکن ‘کرسچن دہشت گردی’، یہودی دہشت گردی’ اور بدھ مت دہشت گردی’ پر خاموش ہوجاتی ہے۔
خیال رہے کہ 2012 میں ہونے والے فرقہ وارانہ واقعات میں 200 افراد ہلاک اور ایک لاکھ 40 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوگئے تھے جس کے مقابلے میں تازہ واقعات بدترین ہیں۔میانمار فوج کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ روہنگیا افراد کی جانب سے چھوٹے پیمانے پرحملے کیے جارہے ہیں جس کے بعد میانمار کی فوج کی جانب سے سخت کارروائی کی گئی۔تاہم بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمان اس کے برعکس میانمار کی فوج کے ظلم کی کہانیاں سنارہے ہیں جبکہ مذکورہ علاقوں میں عالمی میڈیا کی پہنچ نہیں ہے۔