سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے دوچہرے/ مغرب نے دہشت گردی کی ترویج میں سعودی کردار کو تسلیم کرلیا ہے
طے تو یہ تھا کہ محمد بن سلمان 12 مارچ کو فرانس کا دورہ کریں لیکن ان کا یہ دورہ آخر مارچ یا آغاز اپریل تک مؤخر ہؤا ـ وجہ نا معلوم ـ برطانیہ کے سفر میں بن سلمان کو عوامی احتجاج کا سامنا تھا جس کے لئے انہیں برطانوی حکومت کی مدد سے ایرانی سفارتخانے پر حملہ کرانا پڑا، تا کہ اس کی آڑ میں وہ ہتھیاروں کے سودے بھی کرسکیں اور ذرائع ابلاغ کی نظروں سے بھی محفوظ رہیں۔ گوکہ برطانیہ ترک نژاد وزیر خارجہ، وزیر اعظم تھریسا مے (Theresa May) اور 92 سالہ ملکہ الیزبتھ نے ان کی خوب آؤ بھگت کی اور مطلوبہ تشہیری ماحول سازی کی آڑ میں بیچ دیا قاتل شہزادے کو جو کچھ بیچنا طے پایا تھا۔
بہرصورت مؤخر ہونے والے دورے کو موضوع سخن بنا کر فرانس 24 نیوز چینل نے دو ماہرین سے مکالمے کا اہتمام کیا جس میں محمد بن سلمان کی شخصیت اور کاردگی کو زیر بحث لایا گیا۔
فرانس 24 کے سینئر پولیٹیکل ایڈیٹر گوتیئر ریبینسکی (Gauthier Rybinski) نے کہا: محمد بن سلمان مطلق العنان حکمران بننے کے درپے ہیں، وہ مطلق اقتدار کے خواہاں ہیں؛ انھوں نے اسی مقصد سے اپنے آس پاس ان سب کرداروں کو کھُڈے لائن لگایا جو اقتدار کی دوڑ میں ان کے رقیب ہوسکتے تھے؛ مذہبی راہنماؤں کے ساتھ چپقلش بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ محمد بن سلمان مذہبی راہنماؤں کے اقوال اور موقف سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے لیکن ان سے ناراض ہیں اس لئے کہ وہ مذہبی راہنما اور علماء اس کے اقتدار کے مد مقابل برابر کی طاقت کے حامل ہیں۔
محمد بن سلمان کے دو چہرے
ریبینسکی نے دعوی کیا: محمد بن سلمان سمجھ چکا ہے، کہ سعودی معاشرے میں رائج نظری انتہاپسندی کی جڑی ہوسکتی ہے جس سے نمٹ لینا چاہئے اور اسی بنا پر انھوں نے اصلاحات کا اعلان کیا۔ وہ ایک جنگ پسند شخص ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے یمن کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔ ان کے پاس ایک فوج ہے جو (ریبینسکی کے بقول) اسرائیل کے بعد مشرق وسطی (مغربی ایشیا) کی دوسری طاقتور فوج ہے! لیکن اس کے باوجود، وہ یمن کی جنگ کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ نیز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان سے پیار کرتے ہیں، ٹرمپ اس شخص کے کھردے اور خام پہلو کو بہت پسند کرتے ہیں؛ سعودی شہزادہ جس نے کسی یونیورسٹی سے کوئی قابل قبول ڈگری حاصل نہیں کی ہے اور محض سعودی عرب کی رائج تعلیم حاصل کی ہے اور کبھی بھی کوئی بین الاقوامی سند حاصل کرنے کے درپے نہیں رہا ہے۔ وہ ایک عمل کرنے والے شخص ہیں، اور ابھی تک اس ابہام کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کی اعلان کردہ اصلاحات اور تعمیر نو کے اقدامات حقیقی ہیں یا ظاہری؟ بہرصورت یہ ابہام اپنی جگہ باقی ہے کہ گویا دو محمد بن سلمان سعودی عرب میں کردار ادا کررہے ہیں ایک اندرون ملک اور ایک بیرون ملک۔
شاہی قیدی، سنہری جیلخانہ اور نتائج
ریڈیو مونٹ کارلو کے چیف ایڈیٹر مصطفی نوسا نے محمد بن سلمان کے اندرون ملک طرز سلوک اور ان کے ہاتھوں سعودی راہنماؤں اور شہزادوں کی گرفتاری کے بارے میں کہا: محمد بن سلمان کے اقدامات سعودی تاریخ میں بے مثل ہیں۔ انھوں نے اپنے باپ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ مل کر شہزادوں اور بڑے بڑے تاجروں کو بلوایا جن میں سے کئی افراد اصولی طور پر بیرون ملک مقیم تھے۔ المختصر ان سب کو ریاض بلوایا گیا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ سعودی بادشاہ نے انہیں ملاقات کی دعوت دی ہے۔ سعودی حکمرانی کی رسم یہ ہے کہ اگر کوئی سعودی شہری یا شہزادہ کرہ ماہ پر بھی ہو، بادشاہ کی دعوت پر ریاض پہنچا پڑتا ہے۔ وہ وہاں پہنچے تو سب شہزادوں، تاجروں اور وزیروں نے ریٹز کارلٹن ہوٹل میں زیر حراست پایا۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ یہ سب محمد بن سلمان کے ماتحت انسداد بدعنوانی کمیٹی کا کارنامہ تھا۔ کمیٹی نے قرار دیا تھا کہ ان شہزادوں اور سابقہ اور موجودہ حکام اور تاجروں کی جمع پونجی ـ جو اس کے بزعم ناجائز ذرائع کا ثمرہ ہے ـ کے بارے میں وضاحت دینا ہوگی۔ چنانچہ انہیں پوری دولت محمد بن سلمان کے سپرد کرنا ہوگی۔
نوسا نے ان گرفتاریوں کے نتیجے کے بارے میں کہا: اس سلسلے میں ابہامات بہت ہیں؛ اس داستان میں الجھے ہوئے افراد میں سے کسی ایک کا موقف بھی براہ راست شائع یا نشر نہیں ہؤا ہے۔ حتی اگرچہ ولید بن طلال ـ جو بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھتے ہیں ـ کو بولنے کا موقع دیا گیا لیکن ولید نے بھی حقائق بیان نہيں کئے۔ سعودی بادشاہت کے مخالفین اور اپوزیشن راہنماؤں کا کہنا ہے کہ ولید بن طلال کو بلیک واٹر نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے؛ گوکہ کہ ان کا اپنا موقف یہ تھا کہ "میرے لئے سب کچھ ٹھیک تھا"۔
بالآخر محمد بن سلمان کے اس اقدامات کے دو نتیجے تھے: انھوں نے شہزادوں کی طاقت اور ان کی جاہ طلبانہ امنگوں کو کچل دیا اور دوسری بات یہ کہ انسداد بدعنوانی کی آڑ میں 103 ارب سے زائد رقم بٹور لی جو ان کے بقول گرفتار افراد کی ناجائز آمدنی کا حصہ تھی۔ یہ رقم سعودی سرکاری خزانے میں پلٹا دی گئی تا کہ انہیں سونے کے ہوئے قیدخانے سے رہا کردیا جائے۔ تاہم یہ سب اندازے اور تخمینے ہیں کیونکہ جو کچھ رونما ہؤا ہے اس کی حقیقی تصویر منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے۔
مبینہ آزادی نسوان
ریبینسکی نے سعودی عورتوں کو دی گئی مبینہ آزادی کے بارے میں کہا: اس آزادی ـ بطور مثال عورتوں کی ڈرائیونگ کے پیچھے کوئی چیز چھپی ہوئی ہے۔ جو خاتون گاڑی چلاتی ہے، قاعدے کے مطابق وہ کام بھی کرسکے گی اور اپنے گھرانے کے لئے آمدنی بھی کمائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ ظاہری صورت کے برعکس، سعودی معاشرے میں غربت پائی جاتی ہے اور بہت سے گھرانوں کو اپنے روزمرہ اخراجات کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دریں اثناء سعودی عورت کو بدستور عورت مرد کے زیر سرپرستی جینا پڑ رہا ہے؛ خواہ وہ مرد شوہر ہو خواہ بھائی؛ اور اگر کسی عورت کا شوہر اور بھائی نہ ہو تو اس کا بیٹا اس کا سرپرست ہوگا۔ جو کچھ بہت دلچسپی کا سبب ہے یہ ہے کہ سعودی عورت کو ان نئی آزادیوں کی وجہ سے سرخوشی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، مثلا وہ جشن و سرور کا اہتمام نہیں کرسکتیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گی تو حکومت ان کا تعاقب کرے گی اور ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن سلمان کہنا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی تبدیلی اور اصلاح کو اوپر سے ہونا چاہئے۔
معاشی گوناگونی کے مقاصد
ریبینسکی نے معاشی تنوع اور تیل کی آمدنی پر انحصار کے خاتمے کے پروگرام ـ سعودی ویژن 2030 اور سرمایہ کار تلاش کرنے کے لئے سعودی ولیعہد کے یورپی ممالک کے دورے کے بارے میں کہا: اس پروگرام کا ایک مقصد مغرب کی محبت کمانا بھی ہے۔ یہ کہ آپ سعودی جیسے معاشرے میں ایک مصلح کے طور پر متعارف کرائے جائیں؛ یہ بیرونی دنیا کی نظروں میں ان کے لئے بہت اچھا ہے۔ بن سلمان کی دو رخی شخصیت کا ایک پہلو سیاحوں کے لئے 500 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے شہر کی تعمیر کا منصوبہ ہے جس میں ہر قسم کی [جائز اور ناجائز] تفریحات کی اجازت ہوگی۔
فرانس ـ سعودی تعلقات
نوسا نے فرانس اور سعودی عرب کے تعلقات کے بارے میں کہا: میرا خیال ہے کہ فرانسیسی صدر امینیول میکخواں اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان دونوں نوجوان اور ایک ہی نسل کے افراد ہیں۔ میکخواں نے قبل ازیں لبنانی وزیر اعظم کی سعودی عرب میں گرفتاری کے سلسلے میں محمد بن سلمان سے ایک بار ملاقات بھی کرچکے ہیں اور انہیں سعد حریری کی ناکہ بندی سے پیدا ہونے والے بحران سے نکلنے کا موقع فراہم کرچکے ہیں؛ چنانچہ فریقین کے تعلقات بہت دانشمندانہ ہوسکتے ہیں۔
مغرب یمن کی جنگ میں سعودیوں کا شریک؛ مقصد ایران کا اثر و رسوخ کم کرنا!
ریبینسکی نے یمن میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کے بارے میں کہا: تمام مغربی ممالک ہتھیاروں کی شکل میں سعودی عرب کے ساتھ یمن کی جنگ میں شریک ہیں؛ تاکہ وہ ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو کم کرسکیں؛ مغرب نے اس شراکت داری کے ضمن میں یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کی ترویج میں سعودی کردار مغرب کے نقطہ نظر سے قابل قبول ہے۔