صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ امریکی صدر کی گزشتہ روز تقریر میں ایران مخالف شرمناک، ادب سے دور، دشمنی پر مبنی اور جاہلانہ باتیں اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق اور اس کے شایان شان نہیں تھیں۔
ان خیالات کا اظہار صدر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر 'حسن روحانی' نے مقامی وقت کے مطابق بدھ کے روز نیو یارک میں اقوام متحدہ کی 72ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
روحانی نے اس موقع پر کہا کہ دنیا کے اس اہم فورم سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ اعتدال پسندی ایران کی عظیم قوم کا منشور ہے تاہم اعتدال سے مراد تنہائی، توسیع پسندانہ رویہ یا بے حسی نہیں ہے۔
ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ ایران کا رویہ امن پسند اور اقوام کے حقوق کی حمایت پر مبنی ہے، ہمیں ظلم و ستم منظور نہیں اور ہم مظلوموں کا دفاع کرتے ہیں۔
ایران کے صدر نے کہا کہ اعتدال پسندی ایرانی قوم کا منشور اور شیوہ، ہم باہمی احترام اور برابری کی سطح پر مذاکرات کے حامی ہین اور دھمکیوں کی زبان کو نہیں مانتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم دھمکی نہیں دیتے مگر کسی بھی طاقتور کی جانب سے دھکمیوں کو بھی نہیں مانتے، ہماری زبان ادب و عزت کی زبان ہے اور ہمیں دھکمیوں کی زبان منظور نہیں۔
ایرانی صدر نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران مشرق وسطی کے خطے میں دہشتگردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے مگر ہمارا مؤقف یا مقصد فرقہ وارانہ یا نسل پرستی نہیں بلکہ ہمارا مقصد انسانی اقدار، اخلاقیات اور سٹریٹیجک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نہ تو اپنی پرانی سلطنت کی بحالی چاہتا ہے، نہ اپنے ملک کے سرکاری مذہب کو مسلط کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اپنے انقلاب کو زبردستی طور پر دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے کیونکہ ہم اپنی ثقافت، اپنے مذہب کے حقیقت اور اپنے انقلابی امنگوں پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اسے سامراج قوتوں کی طرح اپنے سپاہیوں کے ذریعے دوسروں پر مسلط نہیں کرتے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ ہم اپنی تہذیب، ثقافت، اپنے مذہب اور انقلاب کو فروغ دینے کے لئے دلوں میں جاتے ہیں اور عقل و منطق سے بات کرتے ہیں۔
ڈاکٹر روحانی نے ایران مخالف امریکہ اور ناجائز صہیونی ریاست کی حالیہ ہرزہ سرائیوں کے جواب میں کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ منحوس اور جابر صہیونی ریاست کے ہاتھوں مظلوم فلسطینی عوام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ جمانے والے اپنی سلامتی کی فکر کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ یمن، شام، عراق، بحرین، میانمار اور دنیا کے دیگر علاقوں میں جنگ اور غربت کے شکار ممالک میں عوام تکلیف دہ صورتحال میں زندگی گزاریں اور بعض لوگ اپنے ممالک میں دیرپا امن، سلامتی اور خوشحالی کی زندگی بسر کریں۔
صدر روحانی نے ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے کہا کہ ایٹمی سمجھوتہ کا تعلق کسی ایک یا دو ممالک سے نہیں بلکہ یہ سلامتی کونسل کی دستاویز ہے جس کا تعلق پوری عالمی برادری سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جوہری ھتھیاروں سے زیادہ اس کی تلفی اور روک تھام کے حق میں ہیں اور آج قومی مزاحمت کے ذریعے جوہری ٹیکنالوجی تک پہنچ چکے ہیں اور یہی ہمارا فن اور طریقہ کار ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ اس بات کو نہیں مانا جاسکتا ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست جس نے اپنے مہلک جوہری ھتھیاروں سے خطے اور پوری دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہو اور کسی بھی عالمی قوانین اور معاہدوں کا پابند نہ ہو، وہ دوسری اقوام کو امن و آشتی کی تجویز یا نصیحت کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری معاہدے کے خلاف ورزی میں پہل نہیں کرے گا مگر معاہدے کی خلاف ورزی پر مناسب اور بھرپور انداز میں جوابی ردعمل دے گا۔
صدر روحانی نے انتباہ کیا کہ اگر جوہری معاہدہ کا دنیائے سیاست کے بعض نااہل افراد کی جانب سے خاتمہ کیا جائے تو یہ بدقسمتی کی بات ہوگی کیونکہ دنیا ایک سنہری موقع کو گنوا دے گی تاہم ایسے اقدامات سے اسلامی جمہوریہ ایران ہرگز ترقی اور خوشحالی کے سفر سے پیچھے نہیں رہے گا۔
ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ وعدہ خلافی اور جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیا میں صرف امریکی ساکھ کو نقصان پہنچارہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے ممالک اور دیگر اقوام بھی امریکہ کو مذاکرات یا معاہدے کے لئے قابل بھروسہ نہیں سمجھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز امریکی صدر کی تقریر میں ایران مخالف شرمناک، ادب سے دور، دشمنی پر مبنی اور جاہلانہ باتیں اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق نہیں تھیں۔
صدر روحانی نے کہا کہ امریکی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی قوم کو بتادے کہ اس نے کیوں امریکی عوام اور خطی اقوام کے کھربوں ڈالر کو امن و استحکام کے قیام کے بجائے قتل و غارت، غربت، ویرانی، دہشتگردی اور انتہاپسندی کے فروغ کے لئے خرچ کئے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی معاشی صورتحال گزشتہ چار سال میں بہتری کی طرف آگے بڑھے جس کی وجہ سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کے مزید مواقع بھی فراہم ہوگئے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ عالمی ظالمانہ پابندیوں سے نہ صرف ایران کی ترقی کے سفر نہیں روکے بلکہ اندرونی پیداوار میں اضافے کے لئے قوم میں عزم مضبوط بھی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی اور حکومت عملی دنیا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے پر مبنی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کے اجتماعی تعاون اور مشاورت کے ذریعے سے خوشحالی اور سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
صدر روحانی نے کہا کہ ایران میں قدرتی ذخائر بالخصوص تیل و گیس کے ذخائر وافر ہیں اور ہم دنیا میں دیرپا توانائی کی فراہمی اور اس شعبے میں باہمی سرمایہ کاری کے لئے تعاون پر آماد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ممالک ان کے اس نظریے تشدد اور انتہاپسندی سے پاک دنیا کے ذریعے یکطرفہ رویے، تشدد، جنگ اور تناو کا خاتمہ کرکے امن، اعتدال اور باہمی شراکت داری کو دنیا میں اُجاگر کریں۔
یاد رہے کہ صدر روحانی کی تقریر کے موقع پر عالمی رہنما اور مختلف ممالک کے اعلی وفد شریک تھے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 72واں اجلاس 12 ستمبر سے شروع ہو چکا ہے جبکہ 19 ستمبر سے سربراہان مملکت کے خطابات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔